قرآن حکیم کا اسلوب بیان
صابر حسین جلیسری
قرآن مصدر ہے قِرأ یَعتَر سے‘ اس کے اصل معنی ہیں پڑھنا۔ پس اس چیز کا نام قرآن رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لئے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے۔ (ترجمان القرآن‘ تفسیر سورۃ بقرہ 2) یہاں ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لئے انسانی زبان میںسے زیادہ تر الفاظ بطور انداز بیان، مصطلحات اور استعارے استعمال کئے گئے ہیں جو سلطنت اور بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو اسے سمجھ کر پڑھے‘ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
قرآن کریم نازل تو ہوا عرب میں‘ خاص طور پر عربوں کو حق کی راہ دکھانے اور اوصاف خداوندی سکھانے کے لئے‘ قرآن حکیم میں اس حقیقت کو اسی طرح واضح کیا گیا ہے ’’اس کتاب کی آیت میں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہیں ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو‘‘ (سورۃ یوسفؑ۔ 20) ۔مگر چونکہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے جو انسان کو تاریکی سے نکال کر نور کی طرف رہنمائی کرتی ہے‘ اس لئے اس کی روح ابدی‘ کلام کی تاثیر روحانی اور اس کی تعلیمات آفاقی ہیں یعنی یہ انسان کے لئے ضابطہ حیات ہے۔ انسان اس کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب بیان بھی انسانی فکر و نظر اور ذوق سلیم کے مطابق ہے۔ یعنی انسان جب قرآن پڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ایک ایک نصیحت اس کے دل میں اترتی جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجھ ہی سے ہم کلام ہے۔ اس کا اسلوب بیان اس انداز کا ہے کہ ہر نفس کو فرداً فرداً یکساں طور پر متاثر کرتا ہے اور پڑھتے وقت یہی باور کراتا ہے کہ قرآن اس کے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ تاہم قرآن کے اسلوب بیان کے کئی پہلو ہیں جن کو سمجھنا چاہئے۔ ویسے اس کے اسلوب کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے ’’اے محمدؐ ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرائے میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں‘‘ (سورۃ یوسف۔ 3) قرآن حکیم کو دینی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اور منفرد اسلوب کے لحاظ سے بھی دنیائے علم و ادب میں غیر معمولی عظمت و بڑائی کا شرف حاصل ہے اور کفار‘ منکرین حق اور مشرکین کے فصحا و حکماء نور حق سے نابینا اور لذت و وحدت سے ناآشنا ہونے کے باوجود قرآن مجید فرقان حمید کی ادبی لسانی خوبیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
جس زمانے میں قرآن نازل ہوا ہو زمانہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے دور جاہلیت تھا مگر لسانی و فکری اعتبار سے علم و حکمت کا دور تھا۔ اس دور میں شعر و ادب اور زبان دانی کا چرچا عام تھا۔ اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں زبان و ادب کے استعمال کو طرۂ امتیاز سمجھا جاتا تھا۔ بات بات پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے جاتے تھے۔ رزمیہ اور طربیہ شاعری لوگوں کے دلوں میں انقلاب برپا کر دیتی تھے۔ فصحائے عرب کی شعلہ بیانی مردہ رگوں میں خون گرما دیتی تھی۔ حسن و عشق کے معاملات میں بھی غیر معمولی قوت بیان کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ غرض یہ کہ وہ دور زبان و بیان کے اعتبار سے بے مثال دور تھا۔ نزول قرآن کا مقصد رشد و ہدایت اور تبلیغ کے ذریعے لوگوں کے دل و دماغ میں انقلاب برپا کرنا تھا اور ان کے سینکڑوں برسوں کے عقیدوں کو باطل ثابت کرنا اور اللہ کی ذات کو واحدہ لا شریک ثابت کرنا تھا اور اس کا اطاعت گزار بنانا تھا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا جب ان کے دل میں بات ٹھیک ٹھیک بٹھانے کے لئے ان کے زور کلام کے سامنے ایسا کلام پیش کیا جائے جو اس دور کے لسانی معیار سے فائز اور فائق ہو اور قوت استدلال سے مالا مال ہو۔ کلام الٰہی ہونے کی بنا پر قرآن مجید اپنی تاثیر اور سلامت کے اعتبار سے بے مثال اور پراثر ثابت ہوا۔ اس نے شاعرانہ خیالات کے برعکس نرم لہجہ اور ناصحانہ انداز اختیار کیا۔ کیف و سرور کے نغمے سنانے کے بجائے مشاہدے کی قوت اور فکر و تدبر کی صفات کو ابھارا۔ سورماؤں کے قصے بیان کرنے کی بجائے معتوب قوموں کے عبرتناک واقعات بیان کئے اور انہیں ان کے انجام سے ڈرایا۔ انسانی ذہن کو سورج چاند ستارے اور دوسری غیر مرئی طاقتوں کے سحر سے نکال کر اور ان کی پیدائشی اور تخلیقی کائنات کے رموز و اسباب بیان کئے اور ان حقائق کے ذریعے وحدت خداوندی کو ثابت کیا تاکہ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا انسان زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ ہو اور آنکھیں کھول کر نور حق کا مشاہدہ کرے۔ کلام کے ابتدا میں فرمایا گیا:’’پڑھئے اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے‘ پڑھئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے اس نے تعلیم دی قلم سے انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ (سورۃ علق) ۔یہ تھا خالق کائنات کا اپنے بندوں سے پہلا خطاب وحدت خداوندی کا تعارف‘ انسان کی پیدائش کا راز‘ علم و حکمت کے نور سے جہالت کی تاریکیوں کے انقطاع کا اعلان۔
قرآن حکیم کے مطالعے میں اس کے بیان کردہ مضامین کو خاص اہمیت حاصل ہے جو انسانی زندگی کے مخفی پہلوؤں اور تخلیق کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا لیتے ہیں اور انسان کو اس علم کی تعلیم دیتے ہیں جو وہ نہیں جانتا۔ دوسری طرف انسانی ذہن پر اس کے دائمی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسانی زندگی کے لئے لائحہ عمل بن جاتے ہیں۔ اس میں تاریخ‘ فلسفہ‘ مابعد الطبیعات‘ انسان اور موجودات عالم کا ذکر‘ تمدن و سیاست اور معیشت و معاشرت‘ قانون احکام‘ تعلیم اور اخلاق ان سب کا بیان انسانی فکر و تنقید کے انداز میں نہیں بلکہ سادہ تصنیفی انداز میں ہیں جو پڑھنے والوں کے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ قرآن گزری ہوئی قوموں کے واقعات پر گفتگو کرتا ہے۔ مختلف قوتوں کے اخلاق و عقائد اور اعمال پر تنقید کرتا ہے۔ مابعد الطبیعی مسائل کی تشریح کرتا ہے اور بہت سی دوسری چیزوں کا ذکر کرتا ہے۔ مگر اس لئے نہیں کہ اسے طبیعات ، تاریخ یا فلسفے یا کسی اور فن کی تعلیم دینی چاہئے بلکہ اس لئے کہ اسے حقیقت نفس الامارہ کے متعلق انسان کی غلط فہمیاں دور کرنی ہیں۔ اصل کی اصل حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کرانی ہے۔ خلاف حقیقت رویئے کی غلطی دور کرنی ہے اور کہیں اس رویئے کی طرف دعوت دینی ہے جو مطابقت حیات اور خوش انجام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز کا ذکر صرف اس حد تک اور اس انداز سے کرتا ہے جو اس کے مقصد کے لئے ضروری ہے۔
فصاحت‘ بلاغت اور سلاست قرآن حکیم کی جان ہیں۔ یہ ایک ضابطہ حیات ہے زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں اخلاقی‘ معاشرتی اور سیاسی اصول وضع کرتا ہے اور انسانی زندگی میں ان اصولوں کو بڑی سختی سے نافذ کرنے پر زور دیتا ہے اور ان سے انحراف کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے اور انہیں آخرت کے عذاب سے اور اللہ کے غضب سے ڈراتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن حکیم تمام ظاہری اور باطنی علوم کا سرچشمہ ہے۔ کائنات اور ماورائے کائنات جو کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے‘ قرآن اس کی تفصیل بیان کرتا ہے۔