کلہاڑے نے جب درخت کو کاٹ دیا، تو درخت نے تَاسّف سے کہا تھا کہ لوہے کے اس مشت بھر ٹکڑے کی کیا اوقات؟ دھوکہ تو مجھے میرے بھائی نے دیا۔ لکڑی کا دستہ اگر لوہے کے اس ٹکڑے کے ساتھ مل کر وار نہ کرتا، تو یہ میرا بال بھی بیکا نہ کرسکتا تھا۔ بین الریاستی امور اور عالمی سیاست کا سوال اٹھتا ہے تو دنیا بھر کے مسلمان مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، اور اس حوالے سے ہم نے چند بیانیے تخلیق کر رکھے ہیں۔ مغرب باالخصوص امریکہ کو کوسنے دیئے جاتے ہیں کہ ہمارے سب مسائل اسی کے پیدا کردہ ہیں۔کچھ اس قسم کا تاثر بھی دیتے ہیں کہ گویا پوری دنیا کو مسلمانوں کیخلاف سازشیں کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ مِن حیث الاُمّہ ہم اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں پر نظر نہیں دوڑاتے۔ بلکہ اس نوع کے موضوعات پر گفتگو کو بھی ہم نے ناگفتنی یعنی Taboos کی کیٹیگری میں ڈال رکھا ہے، جن پر کھل کر اظہار خیال کی توفیق ہی نہیں ہوتی، اور اشارہ و کنایہ سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مجھے آج کے کالم میں مسلم دنیا کے دو سلگتے مسئلوں پر بات کرنا ہے۔ اوّل یمن اور دوسرا فلسطین۔ یمن خطے کا مفلس ترین ملک ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جنگی تباہ کاریوں کا شکار اور ہر قسم کی غیر ملکی امداد سے محروم۔ سعودیہ کی جانب سے کی گئی ناکہ بندی اس قدر سخت کہ اشیائے ضروریہ کی شدید قلت، اور خوراک کی کمی نے قحط کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ عالمی امدادی تنظیموںW FO ، ریڈ کراس کو بھی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں جس سے بوڑھے، بجے، خواتین وبائی امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ پچھلے گرما میں ہیضہ پھوٹ پڑا تھا، اور دو ہزار سے زائد یمنی لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ Save the Children والے دہائی دے رہے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے خوراک کی قلت کی وجہ سے قریب المرگ ہیں۔ فوری طور پر اقدامات نہ کئے گئے تو انہیں بچانا مشکل ہو جائیگا۔اور ستم یہ کہ یہ دورِ ستم مختصر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ جنگ بندی کے حوالے سے سات معاہدے پہلے بھی ہوئے اور سب ٹوٹ گئے اور ڈیڈ لاک بدستور جاری ہے۔ ریاض کو اندیشہ ہے کہ ناکہ بندی نرم کی گئی تو تہران کے حمایت یافتہ حوثی باغی اسلحہ کے ڈھیر لگا دینگے۔ ایسے میں یمن اور اہل یمن کیلئے بس دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ فی الحقیقت یہ علاقائی بالادستی کی جنگ ہے، جو سعودیہ اور ایران کے مابین لڑی جارہی ہے۔ دونوں اپنے اپنے مہروں کے ذریعے ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ریاض صدر ہادی کی حکومت کا حامی ہے، تو تہران حوثیوں کا پشت پناہ ہے۔ اس پراکسی کے علاوہ مختلف مذہبی گروہ اور فرقے بھی باہم دست و گریبان ہیں۔
عالم اسلام کا دوسرا مسئلہ جس کے حوالے سے سیاست بلکہ منافقت کی جارہی ہے، فلسطین کا ہے۔1947ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسرائیل کی تخلیق کی، تو ساتھ ہی مقدس شہر یروشلم کو بھی مشرقی اور مغربی حصے میں بانٹ دیا تھا۔ مشرقی حصہ فلسطین کو اور مغربی اسرائیل کو ملا۔ 1967ء میں اسرائیل نے مشرقی حصہ پر بھی غاصبانہ قبضہ جما لیا، تو عالمی برادری نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ گو اسرائیل نے 1950ء میں یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا تھا، مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پیش نظر رکن ممالک نے اپنے سفارتخانے تل ابیب میں ہی رکھے۔ بالآخر اسرائیل کیلئے امریکہ کی محبت غالب آئی، اور صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ جسے اقوام متحدہ نے اس بار بھی مسترد کردیا ، اور دنیا بھر نے واشنگٹن کے اس فیصلے کی مذمت کی۔ لیکن حیران کن بات یہ کہ بعض عرب ممالک نے اس معاملہ پر چپ سادھے ہی نہیں رکھی، بلکہ ان کا طرز عمل مناقشانہ اور منافقانہ تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق طے یہ پایا کہ درون خانہ امریکہ کے ساتھ مکمل اتحاد و اتفاق، اور بظاہر اسکے اس اقدام کی مذمت کی جائیگی۔ چنانچہ تند و تیز بیانات آئے کہ یروشلم کے حوالے سے اپنی نصف صدی پرانی پالیسی تبدیل کرکے امریکہ نے اچھا نہیں کیا۔
ایک سربراہ نے تو صدر ٹرمپ کو فون کرکے بھی دل کی خوب بھڑاس نکالی، کہ اسرائیل کی محبت میں اس قدر آگے جاکر انہوں نے عربوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ مگر یہ ڈرامہ پہلے سے طے تھا۔ اور دوسری طرف اسی ملک کے انٹیلی جنس چیف نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ہدایت کی کہ فیصلہ پر تنقید نہ کی جائے بلکہ ’’محاسن‘‘ بیان کرکے اسے عوام الناس کیلئے قابل قبول بنایا جائے۔
تمام مسلم ممالک کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات ہماری فارن پالیسی کا بنیادی عنصر ہے۔ مِن حیث الاُمہ دنیا بھر کی مسلم ریاستوں کیساتھ برادرانہ تعلقات، سعودی عرب کیساتھ خصوصی روحانی اور مذہبی رشتوں کے علی الرغم ہمارا رویہ بے حد محتاط اور متوازن ہونا چاہئے ،جو شاید نہیں ہے۔ حوثی باغیوں نے ریاض کے ایئرپورٹ اور شاہی محل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، تو ہمارے فارن آفس نے کھل کر اسکی مذمت کی تھی، کہ معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے علاقائی امن و سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہو جائیگا۔ مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ یمن پر سعودی اتحاد کے حملے بھی تو کچھ کم تباہ کن نہیں، مسلسل ناکہ بندی اس پر مستزاد، جس نے یمنی باشندوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ تباہی کی خبریں جو باہر نکل رہی ہیں، اس قدر خوفناک ہیں کہ اگر یہی صورتحال کچھ عرصہ اور برقرار رہی تو ، تاریخ کا ایک بڑا انسانی المیہ ظہور پذیر ہوگا جس پر عالمی برادری مسلسل فوکس کئے ہوئے ہے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ جیسے کٹھور انسان کا دِل بھی پسیج چکا، اور انہوں نے ناکہ بندی نرم کرنے کی غرض سے اپنے سعودی دوستوں سے بات کی ہے۔ہمارے فارن آفس کو بھی اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور حوالے سے بھی ہماری پوزیشن بہت ٹائٹ ہے کہ ہمارا ایک سابق آرمی چیف سعودیہ کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد کی سربراہی ہی نہیں کررہا، اس کی پلیٹ میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کا مینیو بھی موجود ہے۔