بالعموم عدالت توہین عدالت کے حوالے سے نرمی کا رویہ اختیار کرتی ہے مگر ایک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے منصب سے ہٹا دیا گیا۔ نواز شریف کو بھی نااہل کیا گیا۔ اب پھر نواز شریف مسلسل توہین عدالت کر رہے ہیں کھلم کھلا کر رہے ہیں۔ ان کے ایک کارکن سنیٹر نہال ہاشمی نے حد کر دی۔ غیرمشروط معافی مانگنے کے باوجود عدالت نے اسے سزا دی ہے۔ اس فیصلے پر اچھا لگا ہے۔ نہال ہاشمی کی باتوں کا سب لوگوں نے برا منایا تھا۔
پاکستان کی زمین تنگ کر دینے والے پر پاکستان کی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ جارحانہ تقریر کرتے ہوئے نہال ہاشمی کا انداز دیکھیں اور اب وہ عدالت ہی میں گرفتاری کے بعد پولیس والوں کے آگے آگے مودبانہ طریقے سے چل رہے تھے تو دیکھنے والوں کو بڑا مزا آیا۔
گورنر سندھ نے عدالت کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا ہے مگر نواز شریف نے صحافیوں کے اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ مریم نواز سے زیادہ تدبر کی امید تھی مگر وہ بھی اپنے والد کے لیے بہت غصے میں دکھائی دیتی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ غم، غصے سے بہرحال بہتر ہے۔ غم کی طاقت سے کام لینے کا زمانہ اب گزر گیا ہے۔
نہال ہاشمی نے جو کچھ کیا وہ اپنے لیے تو نہ کیا تھا۔ وہ نواز شریف کے لیے کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔
نواز شریف کو نااہل کیا گیا ہے مگر وہ اپنی نااہلی کو استعمال کرتے ہوئے ایک ماحول بنا رہے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو آدمی تین بار ملک کا وزیراعظم بنا وہ نااہل ہے اور پھر پارلیمنٹ کے ”اہل“ ممبران نے ایک نااہل شخص کو اپنی سیاسی جماعت کا صدر بنا لیا۔ یہ کوئی پیغام عدالت عظمیٰ کے لیے تو نہیں ہے؟ وفاقی حکومت کے لیے بھی کوئی اشارہ ہے۔
ایک ”اہل“ وزیراعظم خاقان عباسی نے ایک نااہل آدمی کو اپنا وزیراعظم بنا لیا ہے۔ یہ کیا تماشا ہے یہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ اس کھچڑی کو کھائے گا کون؟ اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے وزیراعظم کو یہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب توہین کے لیے تضحیک کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔
افواج پاکستان اور سپریم کورٹ اپنی عزت کا اہتمام نہیں کریں گی تو پھر کیا ہو گا۔ اب اداروں تک بات نہیں رہی۔ اب براہ راست پاکستان کی بات چل نکلی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کیا آپ کو ایسا پاکستان چاہیے؟ اب سیاسی فیصلے ”قومی“ فیصلے بنائے جا رہے ہیں؟
ایک تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں کہا کہ اب توہین عدالت کا قانون ختم کر دینا چاہیے کیونکہ بڑے لوگ جنہوں نے پاکستان کو لوٹا وہ توہین عدالت کرتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ جب کوئی عام آدمی بالواسطہ بھی کوئی چھوٹی سی بات کر دیتا ہے تو اس کے خلاف توہین عدالت لگ جاتی ہے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عدالت کے خلاف باتیں کر کے کونسے مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں۔ تو پھر یہ ہو گا کہ کسی قتل کے مقدمے میں سزائے موت دی جائے گی تو اس کے رشتہ دار اور دوست وغیرہ عدالت کے خلاف جلوس نکال دیں گے۔ چاہیے تو یہ ہے فیصلہ خلاف بھی ہو تو لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں کرتے جو کسی عدالت کے لیے قابل اعتراض ہو۔
نواز شریف جو کچھ کہتے ہیں وہ تو اپنی جگہ، ان کے جلسوں میں ”وزیراعظم نواز شریف“ کے نعرے لگتے ہیں۔ یہ بھی توہین عدالت ہے۔ وزیراعظم کے طور پر عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے۔
میرے خیال میں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے اور اگلے پروگرام کے لیے بہت شریفانہ طریقے سے بات کرنا چاہیے تھی۔ مریم نواز کو اپنے والد صاحب کو سمجھانا چاہیے تھا۔ نواز شریف نے فیصلہ تو تسلیم کر لیا ہے۔ وہ وزارت عظمیٰ سے نہ ہٹتے اور مزاحمت کرتے تو کوئی بات تھی؟ انہوں نے فیصلہ قبول کیا مگر لوگوں سے کیوں پوچھتے ہیں۔
چودھری نثار نواز شریف کے بہت مضبوط اور وفا حیا والے ساتھیوں میں سے ہیں۔ میں نے نواز شریف کے ساتھ کہیں بھی چودھری نثار کو نہیں دیکھا۔ چودھری نثار صورتحال کو سنبھال سکتے تھے۔ ملٹری والے بھی اس مستحکم شخصیت والے سیاستدان کی بات مانتے ہیں۔ وہ سول سوسائٹی میں بھی بہت اثرورسوخ رکھتے ہیں اور توازن قائم کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
وہ جس تحریک عدل چلانے کا اعلان کر رہے ہیں وہ کس کے خلاف ہو گی؟ سپریم کورٹ تو رہے گی یہ کوئی سیاسی منصب تو نہیں کہ کارروائی ہو۔ اس صورتحال میں الیکشن کے لیے بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ 2018ءکا الیکشن اب اہم ہوتا جا رہا ہے۔ نواز شریف تو یہ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے؟ کوئی گڑ بڑ ہونے جا رہی ہے۔ اس حوالے سے نواز شریف کو سوچنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭