سول ہسپتال گوجرانوالہ اور پرویز الطاف 

Dec 02, 2023

سلیمان کھوکھر-----چہرے

گوجرانوالہ شہر کے تقریباً 100سال سے زائد پرانے مگر اچھی طرح سے فعال سول ہسپتال کے بارے میں لکھنے کا ارادہ تھاکہ جسے چند یوم قبل پنجاب کے غیر آئینی وزیر اعلیٰ کے دورہ گوجرانوالہ کے موقع پر شہر سے باہر مضافاتی علاقے گوندلانوالہ منتقل کردیاگیا۔ شہر سے وہاں جانا بجائے خود ایک مصیبت ہے۔ پہلے اگر1122کی ریسکیو وین 7منٹ کی اوسط تک تھی تواب اسے شہر سے نئے ہسپتال جاتے ہوئے پون سے ایک گھنٹہ لگ سکتا ہے۔ پنجاب کی موجودہ غیر جمہوری حکومت’عقلمندوں‘ سے بھری پڑی ہے اور ایسے ہی گوجرانوالہ افسر شاہی بھی۔ کسی نے بھی مشورہ نہ دیا کہ اگر گوندلانوالہ ہسپتال چلانا مقصود ہے تو شوق سے چلائیں، اس سے بڑھ کرخوشی کی کیابات ہوگی کہ گوجرانوالہ میں ایک اورسرکاری ہسپتال کا اضافہ ہوگیا ہے مگر ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آسکی کہ موجودہ سول ہسپتال کو کیوں مکمل طورپر بند کردیا گیا جو شہر کے عین اندر اسی طرح موجود ہے جیسے لاہور میں میو ہسپتال اورگنگا رام ہسپتال وغیرہ؟ کیا لاہور میں سروسز ہسپتال، جنرل ہسپتال وغیرہ کے قیام کے بعد میو اورگنگا رام ہسپتال کو بند کردیا گیا تھا؟
ہسپتال کی نقل مکانی کی کہانی یہاں تک لکھی تو ایک کال سننے کے لیے فون اٹھایا اور نادانستہ طورپر انگلی فیس بک پر لگی گئی اورسامنے راولپنڈی سے معروف دانشور اورشاعر پروفیسر مقصود جعفری صاحب کا دل چیر دینے والا پیغام تھاکہ ہمارے مشترکہ دوست پرویز الطاف اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پرویز الطاف 70ءکی دہائی کے بڑے طالب علم رہنما تھے۔ گورڈن کالج پنڈی کے حوالے سے ان کے کارناموں سے آگاہی ہوتی رہتی تھی۔ سنا تھا کہ اردو اورانگریزی زبان پر انھیں یکساں عبور تھا اور یہ طے کرنا مشکل تھا کہ وہ اردو میں بہتر تقریر کرتے ہیں یا انگریزی میں۔ گورڈن کالج سے جب وہ پنجاب یونیورسٹی پہنچے تو انھیں سننے کا موقع ملا۔ کیا روانی تھی، کیا زویر بم تھا، کیا چناو¿ تھا الفاظ کا۔ اور دورانِ تقریر کیا تال میل تھا ان کا اپنے سامعین کے ساتھ،بیان سے باہر ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں ان کا ڈنکا بجنے لگا اور وہ طلبہ یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے ۔جاوید ہاشمی تب صدر منتخب ہوئے تھے ۔
جاوید ہاشمی بھی اچھے مقرر تھے مگر جو بلکہ زبان وبیان اور لہجے و محاورے پرویز الطاف کو حاصل تھا وہ سننے والوں پر جادو کردیتا تھا۔ اپنی تقریر میں شیکسپیئر اور اقبال کا وہ جابجا حوالہ دیتے۔ شیکسپیئر کا تو کوئی ڈرامائی منظر ان کی تقریر میں سنتا تو دیر تک سر دھنتا۔ اردو زبان میں اقبال ان کے نوک زبان پر ہوتے۔ میرا تعلق اگرچہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مخالف پلٹ فارم لیفٹ اینڈ لبرل فرنٹ سے تھا اورمیں لیاقت بلوچ کے مقابلے میں طلبہ یونین کے لیے یونیورسٹی میں جنرل سیکرٹری کاامیدوار بھی تھا مگر پرویز الطاف کا گرویدہ تھا اوران سے بہت ملاقاتیں رہیں جو ذاتی دوستی میں تبدیل ہوگئیں۔ 70ءکی دہائی سیاسی طور پر بہت بالغ نظر سیاستدانوں پرمشتمل تھی۔ تب لاہور پیپلز پارٹی کا گڑھ شمار ہوتا تھا۔
اسی اثناءمیں لاہور شادباغ اورمصری شاہ وغیرہ کے علاتے پر مشتمل انتخابی حلقہ نمبر 6میں ایک ضمنی انتخاب آگیا۔پیپلز پارٹی نے اپنے ایک دیرینہ کارکن شہر محمدبھٹی کو انتخابی اکھاڑے میں اتارتو اس کے مقابلے میں ’شیر پنجاب‘ غلام مصطفی کھر خم ٹھونک کرمیدان میں آگئے اورذوالفقار علی بھٹوکوللکارا۔ ایک روز جسٹس(ر) نذیر غازی، گوجرانوالہ کے سابق ڈپٹی میئر میاںعارف مرحوم، خواجہ فلاح اور ساہیوال کے متین چودھری وغیرہ لاءکالج ہاسٹل میں میرے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہم سب نے فیصلہ کیا کہ پرویز الطاف کو اس حلقے سے امیدوار بنایا جائے۔ اگلے روز ہی ہم نے شاد باغ کے قریب جلسے کا اعلان کر دیا۔ لوگوں نے آہستہ آہستہ ہماری طرف مائل ہونا شروع کر دیا اور ہمارے جلسوں میں سامعین کی تعداد روز بروز بڑھنا شروع ہو گئی۔ پرویز الطاف کے اردو خطابات اور میری پنجابی زبان میں تقاریر نے ہر جلسے میں ایسا سماں باندھا کہ ہم ’قابل ذکر‘ہو گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ ہم نے اپنے سٹیج پر غلام مصطفی کھر کو بھی تختہ¿ مشق بنانا شروع کیا تو لوگوں نے ہمارے جلسوں میں بھر پور حاضری دینا شروع کر دی۔
مصطفی کھر کے حلقہ¿ احباب کے علاوہ جب یہ خبریں اسلام آباد تک بھی پہنچی تو حکومتی گرگوں نے ہمارے ساتھ رابطہ بڑھانا شروع کردیا اور مصطفی کھر کے خلاف مواد بھی مہیا کرتے مگر ہم وہی کرتے جو ہمارے ان دوستوں کا جی چاہتا جن کا ذکر قبل ازیں ہو چکا ہے۔ پرویز الطاف کا اعلیٰ کردار اس وقت ایک با ر پھر سامنے آیا جب چودھری ظہور الٰہی نے انھیں اپنے گھر بلوا کر اپنا مدعا بیان کیا کہ مصطفی کھر کے خلاف تقریر نہ کیا کریں۔ پرویز الطاف نے جواب دیا کہ ابھی میرے ان سب ساتھوں کو یہاں بلائیں۔ میں ان سے رائے لیتا ہوں۔ ہم میں سے جو میسر تھے وہ چودھری ظہور الٰہی کے ہاں گلبرگ گئے اور دوٹوک انکار کر دیا۔ چودھری صاحب کے ’سمجھانے بجھانے‘کے باوجود ایک حر فِ انکار ہی ان کے لیے رہا۔ اچھا پرویز الطا ف خدا حافظ ! تم جتنا عرصہ جیے عزت، غیرت اور خودداری سے جیے۔ تم نے ہماری طرح سمجھوتوں سے پاک زندگی بسر کی ۔ رئیس زادے ہو کر بھی درویشی کو اپنا یا۔ اللہ تمھیں جوار رحمت میں جگہ دے! آمین 
٭....٭....٭

مزیدخبریں