کتابیں پڑھنے والی شخصیت....(1)

اس کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک متوسط طبقے کے عام کسان گھرانے میں پیدا ہوا مگر اپنی مسلسل محنت لگن بعد ملک و قوم کے لئے کچھ کر گزرنے کے جذبے ، جستجو اور علم کی پیاس نے اُسے وہ مرتبہ عطا کیا جس کی دوسرے خواہش تو کر سکتے ہیں مگر یہ مرتبہ میسر صرف اور صرف انہیں کے حصے میں آتا ہے جو محنت کو عار نہیں سمجھتے اورہردم خوب سے خوب تر کی تلاش میں مصروف و منہمک نظر آتے ہیں ، اس کے بارے میں کہا گیا ” اگرچہ وہ گاﺅں کے سکول کی تعلیم تو حاصل کر چُکا تھا مگر پھر بھی کتب کا بھاری صندوق وہ شہر سے اپنے گاﺅں لے آیا تھا اور ٹےڑی مےڑہی پہاڑی پگڈندیوں پر بھیڑیں چراتے یا رات کو مٹی کے تیل کے چراغ کی روشنی میں انہیں پڑھتا رہتا تھا “لہٰذا جب اسکے زنگ خوا ہو نیورسٹی میں داخلے کی اطلاع ملی اور وہ وہاں جانے لگا تو درجنوں دیہاتی اسے تیس کلو میٹر دور تک رخصت کرنے آئے “
ےہ کس ملک کے صدر کا ذکر خیر ہے؟یہ ہم ذر ا بعد میں سب بتاتے ہیں لیکن اتنا یاد رہے کہ اسے ابلاغیات سے صرف علمی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی دلچسپی بھی ہے اور کالم نگاری بھی اس کا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔ بلکہ قلمی نام سے اس نے عوامی فلاح و بہبود کے موضوعات پر دو سو بتےس کے قرےب کالم بھی تحرےر کئے ھےں۔ زندگی کے ہر دور میں ہر قسم کی محنت اور مشقت بھی کی ہے اور لوگوں میں خوشیاں بانٹ کر خوشدلی سے انہیں دوست بھی بنایا ہے ۔کتاب سے اس کا گہرا اور پُرانا رشتہ ہے ۔ غالباً اسی لئے اس نے 2009 ءمیں فرینکفرٹ جرمنی میں منعقدہ ” کتاب میلے “سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ۔
” مختلف ثقافتوں کے باہمی تبادلے سے ہی مختلف
ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہتر جان سکتے ہیں ( اور اس طرح کے کتب میلو ں کی وجہ سے)مثلاًچین کو ۔کنفیوثیس CONFUCIOUS جرمنی کو گوئٹے اور برطانیہ کو شکسپےئر کی وجہ سے جانا جاتا ہے ۔اس طرح بین الا قوامی ثقافتوں کے تبادلے سے ہم انسا نیت کی مثبت پیش رفت اور پُر امن ترقی کو یقےنی سکتے ہیں ۔کتب بینی کا شوق اور اس کے ذریعے اکناف عالم میں ایک دوسرے سے شنا سائی، انسانی فلاح و ترقی کا اہم راز ہے ۔ ویسے بھی وہ جو کہا گیا ۔ کتاب بہترین دوست تنہائی کا ساتھی اور استاد کا درجہ رکھتی ہے ۔ اس لئے جس قوم نے بھی مطالعہ کے شوق کو مہمےز لگائی وہ یقیناًزمانے میں اعلیٰ و عمدہ طرز زندگی ، قابل رشک تہذیب و ثقافت اور لوگوں کے قلب و نظر کی تاجدار بنی ۔اس مناسبت سے بعض تاریخی شخصیتوں کے بارے بڑے خوش کن واقعات نظر سے گذرتے ہیں ، مثلاً1936 ءمیں جب موزے تنگ چین کے طویل مارچ کی قیادت کرتے ہوئے ہوئی کے اپنے کواٹر میں اپنے دو سوتی ، کپڑوں اور اینٹ کے سرہانے کے ساتھ ایک غار میں قیادت کا اپنا ہیڈ کواٹر چلا رہے تھے تو ایک امریکی صحافی ایڈگر سُنو نے ان سے متعلق دیگر تفصیلی معلومات کے علاوہ لکھا ” ماﺅ مطالعہ فلسفے کا بے حد شوقین تھا ایک مرتبہ رات کو جب میں اس سے کیمونسٹ تحریک کے بارے میں انٹرویو لے رہا تھا، ایک مُلاقاتی فلسفے کی کئی نئی کتابیں لے کر آیا ۔ماﺅ نے فوراًمُجھ سے اپنی مصروفیات ملتوی کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ اس نے جم کر تین چار راتوں کے درمیان ان کتابوں کو کھنکال ڈالا اور اس دوران وہ اپنے گردو پیش سے
بے خبر ہوتا تھا ۔ اس نے اپنا مطالعہ فلسفہ صرف اشتراکی فلسفیوں تک ہی محدود نہ رکھا تھا بلکہ قدیم یونانی فلسفیوں اور اسپائی نوزا ، کانٹ ، گوئٹے ، ہیگل اور روسو وغیرہ پر بھی اس کی نظر تھی “شاید اسی وجہ سے اس وقت کے حالات حاضرہ پر اس کی اتنی گہری نظر تھی کہ وہ ہمعصر تمام حکمرانوں کی قیادت کا یوں تجزیہ کرتا ہے وہ امریکی صدر روز وےلٹ کو فسطائیت کا دشمن ،مسولسینی اور ہٹلر دونوں کو بازاری مجمع فروش البتہ ذہنی لحاظ سے مولینی کو ہٹلر سے زیادہ قابل جبکہ ہٹلر کو محض رجعت پسند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ایک بے جان کٹھ پُتلی سمجھتا تھا “
اوپر ہم نے مذکورہ صدر کی گفتگوکا حوالہ دیا تھا کہ لوگ کنفو یشس CONFUCIOUS کی وجہ سے چین کو جانتے ہیں اس کے بارے میں ہم الگ سے تفصیلی ذکر کریں گے مگر کتب بینی اور ذوق مطالعہ کا ایک واقعہ کنفیوشیس کے متعلق بھی بتاتے چلیں ۔ چینی زبان کی قدیم تاریخی کتاب (YIJING )یعنی ” تبدیلیوں کی کتاب The Book of CHANGES َ جیسے اقبال نے کہا ثبات اس تغیر کو ہے زمانے میں اس کتاب کو کنفیوشیس نے اتنی زیادہ بار پڑھا کہ بانس کی جس چھال پر اسےلکھ کر مضبوط چمڑے سے اسکی جلد بندی کی گئی تھی وہ چمڑا تین مرتبہ پچٹ گیا مگر اسکے قاری کا ذوق مطالعہ کم نہ ہوا ۔اسی طرح صدر موصوف نے بیرونِ ملک زیر تعلیم اپنے ہموطن طلباءو محققین سے ۱۲اکتوبر۳۱۰۲کو ”تخلیقی تنوع اور خوابوں کی تعبیر کا وقت“کے موضوع ہر مخاطب ہوئے کہا دیگر امور کے علاوہ ان سب کو جدید علوم ۔ ٹیکنیکی مہارت اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے جدید علوم اپنے آپ کو بہر ور کرنے کے ساتھ ساتھ قدیم چینی اسکالرز اور کتب بینی کا شوق رکھنے والے اپنے عظیم ہم وطنوں بشمول کنفیوشیس، سُن چنگ ، سُو چھن ، کوانگ کھِنگ اور سن کانگ کی کی مثالوں کو سامنے رکھیں یہ عظیم چینی دانشور اس مقام پر کیسے پہنچے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی آج ان کے اخلاف انہیں اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے بارے چند مختصر جملے جو ان کی کتابوں اور منالعے سے شوق کے مظہر ہیں آپ کی نذر ہیں ۔ کنفیوشیس کے ذوق مطالعہ کا زکر ہو چُکا ہے ( جاری ہے)
سُن چنگ نے اپنے بالوں کی بودی ےالٹ کاٹ کر چھت کے شہتیر کے ساتھ باندھ رکھی تھی تاکہ مطالعہ کے دوران اگر انہیں نیند آجائے تو اسی کی کھینچ سے وہ پھر دوبارہ پورے انہماک اور توجہ سے اپنا مطالعہ جاری رکھ سکیں ۔
اسی طرح کے ایک اور ہندو طالب علم کے بارے پطرس بخاری نے اپنے مضامین میں ذکر کیا ہے سن چن نے تو اپنے ذوق مطالعہ کو جاری و ساری رکھنے کے لئے کمال طریقہ اختیار کیا اس نے ورمے کے ساتھ اپنی ران میں سوراخ کر کے اس میں دھاگہ ڈال کر بلندی پر لکڑی سے باندھ رکھاتھا تاکہ رات کے وقت مطالعہ کرتے ہوئے وہ سستی اور کسالت سے نیند کی آغوش سے دور رہیں ۔( جاری ہے)
کورنگ کھنگ بھی مطالعے کا بڑاشوقین تھا مگر غربت کی وجہ سے دئیے کا تیل نہیں خرید سکتا تھا ۔لہٰذا اس نے ہمسائے کی دیوار میں سوراخ کر رکھا تھا اور اس سوراخ سے روشنی کی جو کرن اس کو میسر آتی تھی وہ اس سے کتب بینی کا نشہ پورا کرتا تھا ۔ اور سُنیئے چہیہ ین کمال فطرت کا آدمی تھا ۔جب اس کو مذکورہ بالا کوئی بھی طریقہ میسر نہ آیا تو اس نے کئی جگنو پکڑے اور انہیں ایک سفید شفاف کپڑے کی تھیلی میں بند کر لیا ۔ رات کو جب وہ سب ملکر چمکتے تو اس روشنی سے وہ اپنے مطالعہ کی طلب و تشنگی کو بجھاتا ۔ اب آپ بھی کہیں گے تمہیدہی میں کن کہانیوں میں الجھا دیا اور اس صدر کا نام ابھی تک نہیں بتایا جو اینٹوں ایسی کتابیں پڑھنے کارسیا ےاعا دی تھا ۔ تو جناب وہ وہی صدر محترم ہیں جو جوانی میں سو کلو گندم کی بوری کمر پر اُٹھا ئے پانچ کلو میٹر پیدل سفر کرتا تھا اور یوں اپنے بہن بھائیوں اور والدین کی غذائی ضروریات کی کفالت کرتا تھا ، کوئلے سے بھری ہوئی ٹرالیاں کھینچتا تھا، کھیتی باری کرتا تھا، غرض اسے کسی کام میں عار نہ تھی اور آج اس کی محنت اس طرح رنگ لائی ہے کہ وہ تقریباًڈیڑھ ارب چینی عوام کی قیادت کر رہا ہے اور اس کا اسم گرامی ہے جناب شی چن پھنگ جو ہمارے انتہائی قریبی سدا بہار دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کا ۵۱نومبر 2012 سے صدر ہیں اور موجودہ نسل کا نمائندہ بھی، جو عوامی جمہوریہ چین کے یکم اکتوبر 1949 کے قیام کے بعد پیدا ہوئی ابتدائیں اکثر خاصے بزرگ صدر ہوا کرتے تھے۔ جن تین چینی صدور سے مجھے ملنے کا شرف حاصل ہو ا ان میں سے صرف جناب شی چن پھنگ کے پیش رو جناب چن تھاﺅ تھے جو نسبتاًکم عمری یعنی ساٹھ سال کے قریب کم عمرمیں صدر بنے اور اس کے بعد موجودہ صدر ہیں میں چین میں میںنے اپنی تقرری کے دوران اسی طرح کے کئی کتاب میلوں کا اہتمام کیا تھا اور اس میں پاکستان بُک کو نسل کا اسٹال خاصی توجہ کا مرکز رہا۔ چینی خواتیں و حضرات دلچسپی سے پاکستانی کتب دیکھ اور خرید رہے تھے خدا کر کے جس طرح گذشتہ ماہ کراچی اور پھر لاہور میں کتاب میلہ لگا ہوا تھا یہ سلسلہ مختلف جامعات میں جاری و ساری رہے کہ یہی وہ طریقہ اور زریعہ ہے کہ کم وسائل کے باوجود لوگ اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتے ہیں کتاب انکی رہنما بنتی ہے استاد کا فریضہ انجام دیتی ہے کتب بین کے مشتاق اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے نام پیدا کرتے ہیں۔ےہ فطترت کاکرشمہ ہے ےا اس کی نےک نےتی کی جزا ےا حسن عمل کا پھل کہ اب اسے عوامی جمہوریہ جیسی عظیم المی طاقت کا تیسری مر تبہ صدر منتخب کیا گیا ہے ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ