اسلام آباد کا فیض احمد فیض روڈ....(1)

اسلام آباد کا ایچ سیکٹر تعلیم اور تعلیم سے متعلق اداروں کا علاقہ ہے ۔یہ سیکٹر چونکہ زیرو پوائنٹ سے متصل ہے اس لیے اسے اسلام آباد کا وسطی سیکٹر بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ایچ ایٹ 2میں فاصلاتی نظام تعلیم کی واحد یونیورسٹی ہے ۔یہ جامعہ ملک میں بوجوہ تعلیمی اداروں میں نہ جا سکنے والے مرد و خواتین کو ان کے گھروں ، دفتروں اور دیہات میں تعلیمی سہولیات پہنچانے کے لیے پیپلز اوپن یونیورسٹی کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ضیاء دورکے ساتھ ہی جہاں ذولفقار علی بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت زیر عتاب آئے ،وہیں ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی سے منسوب ہر شے کو مٹانے کی مہم کا بھی آغاز ہوا ۔پیلپز اوپن یونیورسٹی کو بھی مٹانے کی تجویزیں ہوئیں۔انہی دنوں گورنمنٹ کالج لاہور کو یونیورسٹی بنانے کی پیش کش اس شرط پر کی گئی تھی کہ اس یونیورسٹی کو علامہ اقبال کے اسم گرامی سے منسوب کر دیا جائے ۔گورنمنٹ کالج والوں نے اپنے نام میں تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ یہی وہ وقت تھا جب خطرے سے دوچار پیپلز اوپن یونیورسٹی کے کسی عقلمند نے کوشش کی کہ پیپلز اوپن یونیورسٹی کو علامہ اقبال کےاسم گرامی سے منسوب کر دیا جائے۔چنانچہ یہی ہوا ،یونیورسٹی ایکٹ میں پارلیمان کے ذریعے ترمیم کی گئی اور یوں سیکٹر ایچ ایٹ میں ایشیاءمیں قائم ہونے والی فاصلاتی نظام تعلیم کی پہلی اوپن یونیورسٹی نے علامہ اقبال کے اسم گرامی سے منسوب ہو کر اپنی بقائے دوام کا اہتمام کر لیا۔ایشیائ میں فاصلاتی نظام تعلیم کی یہ پہلی یونیورسٹی سیکٹر ایچ ایٹ ٹو میں ہے ۔ اسے حسن اتفاق ہی کہیے کہ 2011ءمیں اسی یونیورسٹی کو فیض احمد فیض چیئر قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔یہ۔چیئر آنے والے آٹھ سال تک متحرک اور آباد رہی ،پھر اس یونیورسٹی پر ڈکٹیٹر ضیائ الحق کی باقیات کا قبضہ ہو گیا ۔اور اس چیئر کی سرگرمیاں روک دی گیئں ۔اس سیکٹر کے جنوب میں ایچ ایٹ ون ہے۔ ان دونوں سیکٹروں کو الگ کرنے والی دو رویہ سڑک کو فیض احمد فیض کے اسم گرامی سے منسوب کیا گیا ہے۔یہ سڑک مغرب کی طرف صوفی تبسم روڈ سے ملتی ہے ،جبکہ مشرق کی جانب سیکٹر ایچ ایٹ فور کے پاس پطرس بخاری روڈ کو قطع کرتی ہوئی سیدھی مشرق کی طرف میر جعفر خان جمالی روڈ سے جا ملتی ہے ۔ پطرس بخاری روڈ شمال کی طرف زیرو پوائنٹ کی سمت نکل جاتی ہے۔یوں اس تعلیمی اداروں والے سیکٹر کی تین نمایاں سڑکیں اردو کے تین نمایاں ادیبوں کے ناموں سے منسوب ہیں۔ میں صوفی تبسم روڈ اور فیض احمد فیض روڈ کے درمیان رہتا ہوں ۔صوفی تبسم روڈ پر جہاں فیض احمد فیض روڈ کا ملاپ ہوتا ہے ،وہیں پر میٹرو بس سروس کا اسٹیشن بھی فیض ہی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اور اس کا نام فیض احمد فیض اسٹیشن ہے۔اس انتساب سے یہ اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ ہماری اجتماعی ذہنی زندگی اور ہمارے رویوں میں فیض احمد فیض کا کوئی نہ کوئی نہ تعلق ضرور رہا ہے۔ ستم ظریف کا کہنا ہے کہ بعض انتساب رسمی بھی ہوتے ہیں۔ان میں سنجیدہ نسبت تلاش کرنا مناسب اور موزوں نہیں ہوتا۔اس کا کہنا ہے کہ ؛ اسلام آباد رائل برٹش آرمی کے نادرن ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی کے دامن بلکہ آغوش میں بسایا گیا ایک شہر ہے ۔اس شہر کے جنوب مشرق میں جی ایچ کیو اور شمال مغرب میں مارگلہ کی پہاڑیاں استادہ ہیں۔ فیض احمد فیض رائل برٹش آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ میں کیپٹن ،میجر اور پھر کرنل کے عہدے پر فائز اور اپنی عمدہ اور افواج کا مورال بلند کرنے والی خدمات کے عوض 1946 میں ایم بی ای یعنی ممبر آف دی برٹش ایمپائر کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکے تھے 1946 میں تقسیم کے اعلان کے بعد وائسرائے لارڈ ویول راولپنڈی میں دربار کرنے آیا تھا ،تو فیض احمد فیض بھی اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے اہم اجلاسوں تک رسائی رکھتے تھے ۔اسی دربار کے دوران اور بعد میں ہونے والی گفتگووں سے فیض سمجھ چکے تھے کہ اب انگریز اور امریکن شمالی خطرے یعنی سویت یونین سے ممکنہ جنگ کی پیش بندی پر متوجہ ہیں ۔ملک تقسیم ہونے جا رہا تھا ،لیکن ان مباحث میں ایسا کوئی سراغ نہ ملا کہ انگریز شمالی خطرے کے سامنے بند باندھنے کے علاو¿ہ بھی کچھ سوچ رکھتے ہیں۔ مارچ 1951ئ کو اسی شہر راولپنڈی سے منسوب برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکس کی تخلیق کردہ مبینہ سازش کے الزام میں فوج کے دیگر سینئر افسران کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض کو بھی رات کے اندھیرے میں لاہور میں ان کے گھر سے حراست میں لے لیا گیا ۔اس حراست نے پاکستان میں ہمیشہ کے لیے رائل برٹش آرمی کی سو سالہ ترجیحات کو نوزائیدہ مملکت کی دفاعی حمکت عملی کی اساس بنا کر رکھ دیا ۔اس مبینہ سازش کا انکشاف وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے ریڈیو پاکستان پر اپنے خطاب میں کیا ۔9 مارچ 1951 کی رات نشر ہونے والے خطاب میں وزیراعظم نے قوم کو بتایا تھا کہ "پاکستان کے دشمنوں کی تیار کردہ ایک سازش کا انکشاف ابھی ہوا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ وہ خود بھی اسی راولپنڈی شہر کے وسط میں واقع ایک پارک میں سامنے سے سینے پر گولی مارکر شہید کر دئیے گئے تھے۔تو گویا اس شہر کو وزرائے اعظم کا مقتل ہونے کی تہمت بھی اپنے سینے پر سجانی پڑی ،کیونکہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں ، ذوالفقار علی بھٹو کو اسی شہر میں سپرد دار کیا گیا اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ بھی اسی پارک کے سامنے رونما ہوا ،جسے لیاقت علی خان کے نام کی نسبت سے لیاقت باغ کہا جاتا ہے۔ خیر فیض احمدفیض دیگر ساتھیوں سمیت ایک جیل سے دوسری جیل منتقل ہوتے رہے ،ان مہینوں اور سالوں کی حقیقی کیفیت کو خود فیض ہی کے ایک شعر کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
( جاری ہے)
اس راولپنڈی سازش کیس سے فیض اپنے ساتھیوں سمیت 1955 میں مکمل طور پر رہا ہو گئے تھے۔اس اسیری نے حب وطن کے جملہ اسرار و رموز فیض احمد فیض پر آشکار کر دیئے ۔راولپنڈی شہر کا معروف ہوٹل بھی فیض احمد فیض کا راز دار رہا ، اور اسلام آباد جیسا سہما ہوا شہر بھی جائے قرار ٹھہرا۔ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ثقافتی امور کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی،اسی اسلام آباد میں انہوں نے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی صورت گری کی ،اسی شہر میں شکر پڑیاں کا لوک ورثہ بھی فیض کی حکمت عملی کا اظہار تھا، جبکہ فیض احمد فیض روڈ سے متصل پطرس بخاری روڈ پر واقع پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز بھی فیض احمد فیض کے فیضان کی عملی تصویر خیال کی جا سکتی ہے۔اسلام آباد اگرچہ ایک سرد مہر شہر قیاس کیا جاتا ہے ،لیکن یہ شہر فیض احمد فیض کے لیے نہایت گرم جوش دوستوں اور چاہنے والوں سے بھی معمور رہا۔فیض احمد فیض روڈ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو لانے اور لے جانے والی گاڑیوں سے معمور رہتی ہے ، اس آباد سڑک پر کوئی بہت قابل ذکر ادارہ موجود نہیں ، بس ایک جامعہ الکوثر کی عمارت ہے ،جس کے سامنے خواتین کا پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ ہے ،اسی سے متصل نیشنل سکلز یونیورسٹی کی خاموش اور خوابیدہ عقبی عمارتیں ہیں۔جن کے سامنے سروے آف پاکستان کا دفتر ہے ۔ واپڈا کا گیسٹ ہاو¿س اور چند منافع خور پرائیویٹ تعلیم فروش اسکول بھی اسی سڑک کنارے آباد ہیں ۔بس یہی کچھ ہے اس فیض احمد فیض روڈ پر ۔پطرس بخاری روڈ کو قطع کرتے ہوئے جہاں سے یہ سڑک میرجعفر خان جمالی روڈ کی طرف رخ کرتی ہے تو اسی کونے میں اسلام آباد کا ایچ ایٹ گورستان محو خواب ہے۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ فیض احمد فیض جیسے بڑے شاعر اور دانشور کے نام سے منسوب کرنے کے لیے اس سے بڑی ، زیادہ بارونق اور زیادہ کشادہ اور بامعنی شاہراہِ کا انتخاب کیا جانا چاہیئے تھا ۔پھر خیال آتا ہے کہ رائل برٹش آرمی کے سابق نادرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کی آغوش میں بسے اس شہر میں فیض احمد فیض کی اتنی یاد بھی غنیمت ہے۔اسلام آباد دانش کا ہو نہ ہو، دربار کا شہر ضرور ہے ۔اس شہر میں فیض احمد فیض روڈ کا وجود دانش اور بصیرت سے دلچسپی کا ایک توانا اظہار نظر آتا ہے ۔اس سڑک کے بیچوں بیچ اسلام آباد کی دیگر سڑکوں کی طرح سر سبز درختوں کی خوش مزاج قطاریں استادہ ہیں ، دھوپ کی چمک اور ہواو¿ں کی حیات افروز لہریں ان درختوں کو گنگنانے میں مصروف رکھتی ہیں۔اگر آپ ذرا کان لگا کر سنیں تو آپ کو فیض احمد فیض کی مدھم آواز ضرور سنائی دے گی کہ
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے