پنشن، پنشنرز، قانون اور انصاف
مختلف محکموں میں ملازمین اپنی ملازمت کے 60 سال محنت، لگن اور ایمانداری سے اپنی زندگی کے شب و روز اس اُمید سے خدمت کرکے گزارتے ہیں کہ جو بقایا زندگی کے دن ہوں گے جو ہمیں 70% پنشن ملے گی اس سے گزارا کر لیں گے۔ ملکی قوانین کے مطابق جو گریجویٹی کی رقم بنتی ہے وہ اکٹھی دے دی جاتی ہے جس سے پنشنرز اپنی زندگی کے رُکے ہوئے مسائل حل کرتے ہیں۔ مثلاً بچوں کی شادیوں کی ذمہ داریاں، مکان کی مرمت اور بچوں کو ایڈجسٹ کرنا۔ بقایا بیسک تنخواہ پر 70% پنشن لگا دی جاتی ہے جس میں سے 50% کمیوٹ کر کے اکٹھی رقم دی جاتی ہے اور بقایا 50% ماہوار پنشن کی مد میں دیدی جاتی ہے۔ 60 سال کی ملازمت پوری کرنے کے بعد اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہ میں نے قانون کی بات بتائی ہے۔ اب آپ کو پنشنرز کے ساتھ ہونے والی قانونی ناانصافیاں بتاتا ہوں۔مقامی بینک کے 12000 ہزار ریٹائرڈ، لاچار، بیمار اور مہنگائی کے مارے پنشنرز پچھلے 15 سال سے اپنا حق حاصل کرنے کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں جن میں سے 700 پنشنرز اپنی پنشن کے بقایا جات ملنے کا انتظار کرتے کرتے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے مگر نہ انصاف ملا اور نہ بقایا جات، اور ابھی بھی دور دور تک ملتا نظر نہیں آرہا۔ پیسے کی قدر کم ہوتی چلی گئی مہنگائی عروج پر پہنچ گئی۔ دس پرسنٹ بجٹ انکریز جو دوسرے محکموں کے ریٹائرڈ ایمپلائز کو دی جاتی ہے مقامی بینک کے پنشنرز کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ بینک ہٹ دھرمی دیکھیں کہ ریویو پٹیشن کے خلاف کسی بھی عدالت نے سٹے نہیں دیا ہوا لیکن وہ پھر بھی ہٹ دھرمی کر رہے ہیں۔ مقامی بینک کی انتظامیہ نے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو بینک کی یونین کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سودے بازی کی اور پنشن 70% سے 33%کر دی جس سے اس وقت کی ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ اور افسرز کی پنشن 1/4 ہو گئی جو کہ بہت بڑی زیادتی تھی۔ بعدازاں ملازموں کے احتجاج پر پنشن کو 50% کرکے جانیوالے ریٹائرڈ ملازمین کو کچھ سہولت دیدی گئی۔ آپ پڑھ کے حیران ضرور ہونگے کہ گورنمنٹ کے سکیل کے 21-20 گریڈ کے برابر ریٹائرڈ ایمپلائز کو 30-25 ہزار پنشن اور اسی طرح نیچے سکیل والوں کو 18-15-12 ہزار پنشن مل رہی ہے جس سے وہ بجلی کا بل تو دور کی بات اپنی میڈیسن ہی نہیں لے سکتے۔ دوسری طرف گورنمنٹ سے اسی سکیل سے ریٹائرڈ 70سے 80 ہزار پنشن لے رہے ہیں۔ یہ ناانصافی کی دوسری مثال ہے۔
2009-2010ء سے ریٹائرڈ ہونیوالے پنشنرز نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اپنے حق کیلئے ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کر دی۔ یہاں سے فیصلہ پنشنرز کے حق میں ہو گیا۔ بینک انتظامیہ ڈبل بینچ ہائی کورٹ میں چلی گئی۔ یہاں سے بھی منہ کی کھانی پڑی اور فیصلہ برقرار رہا۔ پھر بینک انتظامیہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اپیل میں چلی گئی جہاں سے بھی فیصلہ پنشنرز کے حق میں آیا۔ بینک کے جو اسٹیٹوری رولز تھے وہ سوائے ایم این اے قومی اسمبلی کے کوئی چینج نہیں کر سکتا تھا جو بینک کے بورڈ کے چیئرمین اور ممبران نے قانون تبدیل کر دئیے جو کہ بدنیتی اور سراسر ناانصافی تھی۔ اسی رولز کو بنیاد بنا کر پٹیشنرز کے وکیل نے کیس جیتا۔ بینک انتظامیہ نے ایکس فنانس منسٹر کو ہیوی پیمنٹ دیکر ریویو پٹیشن پر لڑنے کیلئے ہائر کیا۔ اس نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے 5 سال کیس کا فیصلہ نہیں ہونے دیاجو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ حالانکہ ریویو پٹیشن تب سنی جاتی ہے اگر کوئی نیو پوائنٹس ہوں ورنہ دوسری پیشی پر خارج کر دی جاتی ہے۔اسی کشمکش میں 5 سال گزر گئے سماعت اور فیصلے کیلئے پٹیشن لگنے ہی نہیں دی گئی۔ 20 مارچ 2020ء سے ایک بھی تاریخ سماعت کیلئے نہیں لگی۔ ریویو پٹیشن کا نمبر378/2017 ہے۔ جو سپریم کورٹ میں 5 سال سے پینڈنگ ہے۔ انصاف کے ٹھیکے داروں سے میرا سوال ہے کہ ان بوڑھے، لاچار، بیمار ریٹائرڈ پنشنرز کا کیا قصور ہے۔ ان سے زندہ رہنے کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے۔ کیا انہیں معاشرے کے بزرگ شہری ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ میری دِلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ان کی مدد فرمائے اور ہمارے سینئر سٹیزن، بوڑھے ریٹائرڈ پنشنرز کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور انکی دِلی تمنائیں پوری فرمائے۔یاد رہے کہ بینک ملازمین اپنی محنت سے ہر سال اربوں روپے کا منافع کما کر دیتے ہیں اور اربوں ہی حکومت کو ٹیکس بھی جاتا ہے لیکن کمائو بیٹوں کی جو کسمپرسی اور حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔