این اے 133میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے
ندیم بسرا
پاکستان کے معاشرہ میں بیک وقت آپ کو تصویر کے کئی رخ دیکھنے کو ملتے ہیں یہاں کے مکین بشمول سیاست دان تمام پہلوئوں سے واقف ہونے کے باوجود جانے انجانے میں وہ باتیں کرتے ہیں جس سے ان کی جانب توجہ مبذول ہو ہی جاتی ہے ۔کیونکہ ان کے پاس اب ایک خطرناک ہتھیار سوشل میڈیا کا موجود ہے ،بدقسمتی کی بات ہے کہ اب ملک کی سیاست میدانوں ،چوراہوں ،تھڑوں اور عام لوگوں کی بیٹھکوں میں اس طرح زیر بحث نہیں ہوتی جس سے کوئی بھی نتیجے نکالے جاسکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوںنے عام لوگوں تک بات پہنچانے کا آسان سا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے وہ طریقہ ــــ’’سوشل میڈیا ‘‘ کا ہے صبح اٹھ کر دیکھیں تو ان کا دن کسی نہ کسی بیان کو داغنے سے شروع ہوتا ہے اور رات کا اختتام بھی ادھر سے ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ جب اکھٹے بیٹھتے بھی ہیں تو ان کی سیاسی چٹکیوں سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ لوگ اب کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچتے کیونکہ آپس میں گفتگو کرنے کا موقع ہی ان سے لے لیا گیا ہے اورانسان کے عقلی دلائل کا بڑا ذخیرہ موبائل میں موجود سوشل میڈیاہی ہے اور اسی کو اوڑنا بچھوڑنا کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہ اس پنجرے میں ہی قید رہنا چاہتے ہیں ۔اب اسی میڈیا نے واویلہ مچایا اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم خود عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور اپنا ’’بیان حلفی ‘‘ خود ہی بھول گئے ہیں اور اب انہیں یاد نہیں کہ وہ بیان حلفی کیا ہے اس کے لئے وقت مانگ لیا گیا ہے،ویسے معزز ججز صاحبان کے حافظے بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ معاشرہ کے ذہین قابل لوگ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ قابل احترام ہوتے ہیں ،مگر سابق چیف جج جی بی بیان حلفی بھول جانا ،حیرانگی کی بات ہے ۔اسی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ سیاسی نقارے کچھ دیر کے لئے بجنا بند ہوجائے کیونکہ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ‘‘۔مسلم لیگ ن کی جانب سے بھڑکیں رک جائیں گی یا پھر انہیں کسی نئی فلم کو لانے کے لئے نیا ٹریلر دکھانا ہوگااب وقت نئے ٹریلر کا آئے گا یا پھر ان کی لیڈرز کی جانب سے رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولے جائیں گے ،سلیکٹڈ ،کٹھ پتلی وغیرہ وغیرہ۔اب بھی وقت ہے شہباز شریف مسلم لیگ کو سنبھالنے کے لئے اپنے اوپرنہ نظر آنے والے حصار کو توڑ دیں ،اگر وقت کی نبض پر ہاتھ نہ رکھا گیا تو واقفان حال دل کی باتوں کو بھی جان لیں گے ، سہاروں کی لاٹھیوں کی بجائے اپنی جماعت کے نئے منشور کو خود سامنے لائیں اور محنت کریں ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ ان کونئے قائد کے طور پر تسلیم کرلیں اس کے لئے صف بندی(سیاسی ) دوبارہ سے کرنا ہوگی اور اپنے آپ سے ایک لیبل کو اتروانے کی ضرورت پڑے گی اگر ایسا نہ یا تو قیاس آرائیاں درست نہ ہوجائیں
بقول شاعر مزار غالب ، یہ شعر شہباز شریف کے لئے نہیں بلکہ حکومتی وزراء کے لئے ہے
’’کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا ‘‘
یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے، تقریبا تین برس بعد کچھ وزراء کووفاقی کابینہ کے اجلاس میںاچانک یاد آگیا کہ مہنگائی زیادہ ہے ،ترقیاتی کام نہیں ہورہے اور بجلی کے اصل قیمت کم اور ٹیکس زیادہ ہے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیوں ضروری ہے وغیرہ وغیرہ ۔کابینہ کے اجلاس میں پرویز خٹک نے یہی فرمایا کہ اپنے حلقوں میں کیسے جائیں لوگ ہم سے ترقیاتی کاموں کا پوچھتے ہیں اور مراد سعید کا بھی یہ فرمانا تھا کہ بجلی کے بلوں کی اصل قیمت کم ہے اور ٹیکسز کی بھرمار ہے اس قسم کے کئی سوالات کئے جاتے ہونگے اور اس میں ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو پارٹی کے کسی زیرک صاحب نے یہ مشورہ بھی دے دیا ہو کہ وزراء بیرون ملک بہت جاتے ہیں ان کو باہر جانے سے روکیں یہ اپنی وزارتوں میں وقت دیںیہاں ان کی وزارتیں لاوارث ہیں وزراء بغیر بتائے باہر جاتے ہیں اور وہاں کانفرنسز میں جاکر لڑتے ہیں اس قسم کا مبینہ الزام مشیر وزیراعظم ملک امین اسلم اور وفاقی وزیر ماحولیات زرتاج گل پر ہے کہ وہ گلاسگو کانفرنس میں لڑپڑے تھے شائد وجہ سے وزیراعظم نے حکم صاددر فرمایا کہ اب سارے ملک میں بیٹھیں اور آرام کی بجائے اور بیرون ملک سیر سپاٹوں کی بجائے ادھر کام کریں اور اپنا قبلہ درست کریں ،اورپیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن لاہور میں این اے 133میں آمنے سامنے ہے ۔پیپلز پارٹی کے دیرینہ اور سینئر رہنما اسلم گل اور شائستہ پرویز ملک مد مقابل ہیں ۔اس حلقے میں مسلم لیگ ن ایک واضح برتری سے 2018کے الیکشن میں جیت چکی ہے اوراب یہ پیپلز پارٹی کا دعوی ہے کہ وہ یہ سیٹ مسلم لیگ ن سے چھین لیں گے ،کیونکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پرحلقے میں ان گھروں کا بھی وزٹ کررہے ہیں جہاں ستر کی دھائی میں پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہراتا تھا ۔ اسلم گل جنہوں نے سیاسی کئیرئر کا آغاز کونسلر کے الیکشن سے شروع کیا،وائس چئیرمین ایل ڈی اے رہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اوربے نظیربھٹو کے قریبی ساتھیوں میںشمار ہوتے ہیں انہوں نے جمہوریت کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیںخصوصا ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں یہ لاہور کے شاہی قلعے میں کئی روز تک بند رہے ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں دیکھیں۔پیپلز پارٹی کے ضلعی صدور اس الیکشن میں پیپلزپارٹی کا پران تشخص بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں اب ضمنی الیکشن کے نتائج پر منحصر ہے کہ کس جماعت نے کتنی تیاری کی اور عوام نے کس جماعت کو سراہا۔