ساہوکاروں کے نرغے میں
خوراک کی قیمتوں میں عالمی اضافہ ہم جیسے مہنگائی کے ستائے ملکوں کیلئے پریشان کن ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال ریکارڈ اناج پیدا ہوگا مگر اس کی کھپت پیداوار سے زیادہ ہوگی۔ خوراک کی قیمتیں عالمی سطح پر مسلسل دوسرے مہینے بڑھ کر دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ پاکستان چینی سے لے کر گندم اور خوردنی تیل تک درآمد کر رہا ہے۔ افراط زر کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف 39 ہزار ارب روپے کے بیرونی اور 498 ارب کے اندرونی قرضوں کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کی دوائی کے بغیر ہمارا ہاضمہ خراب رہتا ہے۔ ہر دور حکومت میں ہم ایڈہاک ازم کا شکار رہے۔ سرکاری کالجوں میں لیکچراروں اور پرنسپلوں تک کی اسامیاں خالی ہیں‘ سالانہ سی ٹی آئی کے نام پر لیکچراروں کی صرف چند ماہ کیلئے عارضی بھرتی ہوتی ہے۔ ایسے کچے ملاز مین کیا ڈیلیور کریں گے۔ پنجاب پبلک سروس آخر کس لئے ہے۔ اسکے طریقہ کار کو بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر آسان بنانا ضروری ہے۔ ہر حکومت کی ترجیحات کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں‘ پچاس لاکھ گھر‘ ایک ارب درختوں کے وعدے کہاں گئے۔ تین سال سے زیادہ صبر کی تلقین کرتے گزر گئے ہیں۔ بجلی گیس پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو چکی ہیں۔ اوبر اور کریم کے کرائے دگنے کر دیئے گئے ہیں۔ اس سے بہتر ہوگا کہ ماضی کی ٹیکسیاں میٹر کے ساتھ چلا دی جائیں۔ رکشائوں پر بھی میٹر نصب کر دیئے جائیں۔ ایف بی آر نے ذاتی انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی ہے۔ اس وقت حکومتی محکموں کی ڈائون بلکہ رائٹ سائزنگ کی ضرورت ہے۔ فضول قسم کے ڈائریکٹوریٹ محض ڈاک خانوں کا کردار ادا کر رہے ہیں فی الفور ختم کر دیئے جائیں۔ مزید جی ایس ٹی استثنیٰ واپس لئے جانے کی تجویز ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں محض 33 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس تو ہر شخص دے رہا ہے۔ بچوں کے فیڈرز اور پیمپرز بھی ٹیکس زدہ ہیں۔ آئی ایم ایف کو ہمارے سماج کی حالت اور مجبوریوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے اپنے پیسے مع سود واپس چاہئیں۔ سود خود مجبوری کا خیال نہیں کرتا بلکہ مقروض کو مجبوری تلے دباتا ہے۔ ہر سال آئی ایم ایف کے نئے تقاضوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تقاضے نہیں ہمارے لئے احکامات ہوتے ہیں۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ نالائقوں کو نالائق تر بنانے کے بعد ملک بھر کے تعلیمی ادارے ہفتے میں چھ دن کھولنے کا خیال آیا ہے۔ یہ خیال اس وقت آیا جب آدھے مضامین کا امتحان لیا تو 33 نمبر دے کر ہر ایرے غیرے کو میٹرک کی سند تھمانے کا فیصلہ کر چکے۔ ایسے احمقانہ فیصلے تو حکومتوں نے جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی نہیں کئے تھے۔ حکومت کے نزدیک کورونا صرف تعلیم کا پیچھا کر رہا تھا‘ باقی ہر طرف چیل پہل تھی۔ آٹے کا سنگین بحران سر پر کھڑا ہے۔ آل ٹائم ریکارڈ گرانی اور کم یابی کا سامنا ہے۔ دو ہفتے کے دوران پندرہ کلو فائن تھیلا 140 روپے مہنگا کر دیا گیا۔ سب سڈی والے آٹے کیلئے قطاریں لگ گئیں۔ سستے آٹے اور چینی کیلئے قطاریں نئی بات نہیں۔ چند روپوں کی بچت کیلئے غریب ہر دور حکومت میں خوار ہوتے رہے۔ بھٹو دور میں لوگوں کو آدھا کلو گھی کیلئے بھی دکانداروں کی منتیں ترلے یاد ہیں۔ فلور مل مالکان وہ کارٹل ہے جسے کوئی حکومت نیچا نہ دکھا سکی۔ بھٹو نے نیشنلائزیشن کی لیکن ڈی نیشنلائزیشن کرنا پڑی ۔ کہاں تھی حکومتی رٹ؟
2019ء میں پی ٹی آئی سرکار نے سماجی تحفظ کیلئے 190 ارب روپے مختص کئے۔ گزشتہ تین سال کے دوران اس مد میں کل رقم 675 ارب روپے مختص کی گئی۔ ن لیگ سماجی تحفظ کیلئے ہر سال دو ارب روپے مختص کرتی رہی۔ پیپلزپارٹی نے اس مد میں سالانہ چار ارب روپے مختص کئے۔ ن لیگ نے اپنے پانچ سالہ عہد میں کل دس ارب خرچ کئے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے تین سال میں 675 ارب روپے سماج پر خرچ کئے۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے غریب کی طرف دھیان دیا۔ 2018ء میں بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات 22 ارب ڈالر سے بڑھ کر 29 ارب ڈالر ہو گئیں۔ یوں تین سال میں ترسیلات میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپین یونین‘ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا شکریہ۔ دنیا کے 190 ملکوں میں کاروبار میں آسانی کے لحاظ سے پاکستان کا 108 واں نمبر ہے۔ ٹیکسوں کی ادائیگی آن لائن ممکن ہے۔ تعمیراتی پرمٹ 100 دن میں لینا ممکن ہے۔ 1960ء میں 4.76 روپے کے بدلے ایک ڈالر ہاتھ لگ جاتا تھا۔ انڈین روپے کی ویلیو پاکستانی روپے کے برابر تھی۔ 1996ء میں دونوں ملکوں کے روپے کی ویلیو گر کر 36 روپے فی ڈالر ہو گئی۔ 2008ء اور 2013ء کے عرصے میں پیپلزپارٹی کے عہد میں روپے کی قدر 20 فیصد گر گئی۔ 2013ء سے 2018ء میں (ن) لیگ کے عہد میں 98 روپے دیکر ایک ڈالر ملنے لگا۔ یوں روپے کی قدر 26 فیصد گر گئی۔ 37 ماہ میں 173 روپے کے بدلے ایک ڈالر مل رہا ہے۔ ویلیو چالیس فیصد گر چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں ڈیزل 44 روپے لٹر سے بڑھ کر 110 روپے لٹر ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے عہد میں 113 سے 120 روپے لٹر اور پٹرول 145 روپے ہے۔ ہر پاکستانی سالانہ 115 کلو آٹا استعمال کرتا ہے۔ 2018ء میں آٹا 35 روپے کلو تھا‘ اب قیمت 70 روپے کلو ہے۔ سالانہ 1700 ارب روپے آٹا پر خرچ ہو رہے ہیں۔ 2008ء میں ہر پاکستانی 36 ہزار کا مقروض تھا۔ پیپلزپارٹی کے عہد میں 88 ہزار کا مقروض ہوا اور اب 218000 روپے کا مقروض ہے۔ ادویات‘ ٹماٹر‘ انڈے‘ گھی‘ پیاز‘ مٹن‘ بیف اور دودھ کی قیمتوں کا حال کوئی صارفین سے پوچھے۔