لوِنگ لیجنڈ ایوارڈ بھی مل گیا!
خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے ۔عزت دے یا دولت دے ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے ۔میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے زندگی بھر نوازا اور اب بھی اس کی نعمتوں اور انوار کی بارش جاری ہے ۔اپنے بارے میں مجھے خود لکھنا پڑتا ہے کیونکہ میں نے کوئی پی آر او نہیں رکھا ہوا نہ میرا کوئی حاشیہ بردار ہے نہ کوئی بستہ بردار ۔خدا کے لیے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا طعنہ نہ دیجئے گا ۔
گورنر ہائوس لاہور میں ایک تقریب منعقد ہوئی اس کا اہتمام پریس کونسل آف انٹرنیشنل افیئرز نے کیا تھا ،سینئر ترین ممبر سید محفوظ قطب نے میرے لیے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطیہ کیا ،اس کا احوال میں پچھلے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں ،مگر اس ایوارڈ نے مجھے ایک مشکل میں ضرور ڈال دیا ہے ،کچھ لوگ مختلف ناموں،نمبروں اور شہروں سے متواتر ٹیلی فون کر رہے ہیں کہ نوائے وقت ہمارا پسندیدہ اخبار ہے اس کے سارے کالم چشم کشا ہوتے ہیں لیکن اخبار ہم آپ کے کالم کی وجہ سے لیتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں کہ اچھا ہوا کہ اب آپ کو ایک ایوارڈ بھی مل گیا اور اللہ نے آپ کو عزت بھی دی پھر دبی زبان میں پوچھتے ہیں کہ اس کے ساتھ انعام اکرام کتنا ملا ،میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ ٹیکس والے ہیں جو مجھے اپنے جال میں پھنسانا چاہتے ہیں لیکن اب معاملہ اس حد سے بڑھ گیا ہے اب تو باقاعدہ لوگ گھر آکر مبارک باد دینے لگ گئے ہیں اور کھلکھلاکر پوچھتے ہیں کہ ایوارڈ کے ساتھ رقم کتنی ملی ،اب میں ان کو کیسے سمجھائوں کہ عزت پیسوں سے نہیں تولی جا سکتی اور نہ سارے پیسے والے عزت دار ہوتے ہیں ،مگر کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ مبارک سلامت دینے والے ان لوگوں سے چھٹکارا کیسے پائوں ،آپس کی بات ہے اہل صحافت میں سے شاید ہی کسی نے مجھے جھوٹی زبان سے ہی مبارک باد دی ہو سوائے چند ایک قریبی احباب کے۔شاید وہ سمجھتے ہیں کہ میں کھلونہ دے کر بہلایا گیا ہوں اور وہ سچ ہی سمجھتے ہیں۔
اسی تقریب میں مجھے لوِنگ لیجنڈ کا ایوارڈ بھی دیا گیا ،اس ایوارڈ کے پیچھے ڈاکٹر آفتاب صدیقی کی بے انتہا محبت کارفرما ہے۔ان سے پہلی ملاقات پندرہ برس قبل پی سی آئی اے کی ایک محفل میں ہوئی تھی ،انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ ایک برطانوی دوا ساز ادارے گولڈ شیف کے اشتراک سے پاکستان میں دوائیاں بنانے کا م کر رہے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں وسیع جگہ لی ہے جہاں پر فیکٹری کام کر رہی ہے ،دوائیاں بنانے سے تو شاید ہم زیادہ متاثر نہیں ہوئے لیکن وہ اپنے ساتھ کمپنی کی طرف سے شائع کردہ ایک میگزین کی کئی کاپیاں بھی لائے تھے جو انہوں نے حاضرین میں تقسیم کیں ۔یہ میگزین بڑے سائز کے آرٹ پیپر پر چھپا ہوا تھا انتہائی دیدہ زیب طباعت کل فل ، اس کے مندرجات پڑھ کر ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ انگریزوں کی ایک کمپنی کا مالک کس قدر ساد ہ زبان میں اور عمدہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اللہ نے ہماری ہر بیماری کا علاج غذا میں رکھا ہے ،ہم اپنا کھانا پینا ٹھیک رکھیں تو بیماریوں سے بچے رہیں گے اور پھر بھی کوئی بیماری لاحق ہوجائے تو ان کی فیکٹری کی بنی ہوئی اور مختلف غذائوں سے کشید کی ہوئی دوائوں سے جلد آرام مل سکتا ہے ان دوائیوں کا کوئی ری ایکشن بھی نہیں ہوتا البتہ فائدہ ضرور ہوتا ہے ۔پندرہ برس قبل کی یہ ملاقات ایک پائیدار دوستی میں بدل گئی اب وہ ہماری پی سی آئی اے میں ایک سرگرم رکن کے طور پر بے حد فعال ہیں۔ان کے اظہارئیے یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ ہیں ۔اصل میں تو وہ ایک منجھے ہوئے سکالر ہیں ،ہر موضوع پر ان کی نظر ہے اور ہر مسئلے پر رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ،ان کی اکثر پوسٹیں مجھ جیسے مبتدیوں کے لیے علم کا ذخیرہ ہیں ۔
گورنر ہائوس میں میڈلز کی تقریب کی اطلاع انہیں ملی تو انہوں نے سوچا کہ وہ کیوں پیچھے رہیں ، انہوں نے میری تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے اور کہنے لگے کہ آپ ہمارے لیے لوِنگ لیجنڈکی حیثیت رکھتے ہیں اور میں آپ کو اسی سلسلے میں اپنی طرف سے ایک ایوارڈ پیش کروں گا اور یہ ہوگا میرے جینا فائونڈیشن کی طرف سے ،ان کالموں کے قارئین جینا فائونڈیشن سے غیر مانوس نہیں ہیں، ڈاکٹر آفتاب صدیقی نے یہ فائونڈیشن خدمت انسانیت کے جذبے سے قائم کر رکھی ہے جس کا مقصد سکول جانے والے پانچ سال سے پندرہ سال کے بچوں کو حفظان صحت کے اصولوں سے آشنا کرنا ہے اس مقصد کے لیے وہ سرکاری اور نجی سکولوں کی تمیز کیے بغیر اس سکول میں کیمپ لگاتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کوئی دو سو بچوں کا طبی معائنہ کرتے ہیں ۔ ان کا قد ماپتے ہیں وزن کرتے ہیں ،بینائی چیک کرتے ہیں ،معدے اور آنتوں کی صورتحال کے بارے میں سوال جواب کرتے ہیں ۔اگر کسی بچے کے جسم میں کوئی طبی نقص موجود ہو تو پہلے تو اسے غذائی چارٹ دے کر دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،بصورت دیگر وہ اپنے ہی گولڈشیف سے تیار کردہ دوائیں بچوں میں فری تقسیم کرتے ہیں ۔جینا فائونڈیشن نے شاید میری علمی کم مائیگی کو دور کرنے کے لیے مجھے لوِنگ لیجنڈ کا ایوارڈ عطا کیا ہے ۔میں ڈاکٹر آفتاب صدیقی کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے کسی قابل سمجھا ورنہ میرا جواب یہی ہے کہ میں خارزار صحافت میںپچپن برس تک بھٹکنے کے باوجود کوئی تیر نہیں مار سکا ،بس یہ ڈاکٹر آفتاب صدیقی کی نگاہ کرم کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے ہاتھوں مجھے لوِنگ لیجنڈ ایوارڈ سے نوازا ۔میں کوشش کروں گا کہ ان کی توقعات پر پورا اتروں اور اپنے قلم کی نوک اور اس کی عصمت کی حفاظت کرسکوں۔خدا مجھے یہ توفیق بخشے۔ آمین!آپ بھی ثم آمین کہیے۔