وفاقی کابینہ کا الیکشن کمشن کے فنڈز روکنے کاعندیہ
وزیراعظم عمران خاں کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر انتخابات کا انعقاد الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر نہ ہوا تو حکومت پاکستان الیکشن کمشن کو فنڈز جاری نہیں کر سکے گی۔ اجلاس میں الیکشن کمشن پر انتخابات ای وی ایم سسٹم کے تحت ہی کرانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین نے پریس بریفنگ میں اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ وفاقی وزیر شبلی فراز نے ای ووٹنگ کے حوالے سے وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی ہے جس کی بناء پر اجلاس میں طے کیا گیا کہ الیکشن کمشن آئندہ ہونے والے ضمنی انتخابات کو ای وی ایم پر منتقل نہیں کرتا تو حکومت اس کے فنڈز روک دے گی کیونکہ قانون صرف ای وی ایم پر انتخابات کو تسلیم کرتا ہے۔ ان کے بقول وزیر قانون کا بھی یہی خیال ہے کہ بادی النظر میں حکومت الیکشن کمشن کو اسی صورت فنڈز دے سکے گی جب انتخابات ای وی ایم پر ہوں گے۔ انہوں نے کہا پارلیمنٹ نے مینڈیٹ دیا ہے کہ الیکشن فوری طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینز پر کرائے جائیں اس لئے الیکشن کمشن آگے بڑھے اور انتخابات ای وی ایم پر منتقل کر دے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے بے شک انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کی خاطر ووٹنگ کے لئے ای وی ایم سسٹم لاگو کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور اس کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ’’وائس ووٹ ‘‘ پر عددی اکثریت کے تحت قانون بھی منظورکرا لیا گیا ہے جس کی بنیاد پر اب وفاقی کابینہ کی جانب سے الیکشن کمشن پر انتخابات ای وی ایم پر منتقل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے بصورت دیگر الیکشن کمشن کو فنڈز منتقل نہ کرنے کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے، اس کے باوجود الیکشن کمشن کے لئے فوری طور پر انتخابات ای وی ایم پر منتقل کرنے کے انتظامات ایک طویل پراسس کے متقاضی ہیں جس کے حوالے سے الیکشن کمشن کی جانب سے پہلے ہی حکومت کو مراسلہ بھجوایا جا چکا ہے۔ جس میں بنیادی تقاضہ الیکٹرانک مشینوں کی خریداری اور دیگر انتظامات کے لئے الیکشن کمشن کو اربوں روپے کے فنڈز کی فراہمی کا کیا گیا ہے۔ اسی طرح ای وی ایم کے استعمال کے حوالے سے انتخابی عملے کی تربیت اور ووٹروں کو اس کے استعمال کے طریق کار سے آگاہ کرنے کا پراسس بھی دقت طلب ہے اور اسی بنیاد پر الیکشن کمشن کی جانب سے پہلے ہی ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کرانے سے معذرت کی جا چکی ہے جبکہ وفاقی کابینہ نے تو اپنے گزشتہ روز کے اجلاس میں آنے والے ضمنی انتخابات بھی ای وی ایم پر منتقل کرنے کا تقاضہ کیا ہے اور یہ تقاضہ پورا نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمشن کو فنڈز جاری نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس سے ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کے حکومتی اصرار پر انتخابات کی شفافیت کے معاملہ میں لامحالہ سوالات اٹھیں گے اور اپوزیشن جماعتیں جو پہلے ہی ای وی ایم کو مسترد کر کے اس کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے اور عوامی تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں جس کے لئے اپوزیشن اتحادپی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر پیپلز پارٹی کے واپس آنے کا عندیہ بھی مل رہا ہے تو ای وی ایم پر انتخابات کی منتقلی اپوزیشن جماعتیں مشکل ہی سے قبول کریں گی۔ چنانچہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی گھمبیر ہونے کا اندیشہ لاحق رہے گا۔
حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بنیاد پر سیاسی میدان تو گرما گرم رہتے ہی ہیں مگر ای وی ایم کے ایشو پر آئینی ریاستی اداروں کا ایک دوسرے کے مقابل آنا زیادہ سنگین اثرات کا حامل ہوسکتا ہے جس سے سسٹم ہی نہیں ملک کی سلامتی کے لئے بھی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
یقینا اس میں بھی کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ آئین پاکستان میں ملک کے تمام ریاستی انتظامی اداروں کے اختیارات اور دائرۂ کار کا تعین ہوچکا ہے اس لئے ہر ریاستی ادارے نے آئین و قانون کے تحت ہی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ الیکشن کمشن کی تشکیل، کمشن کے ارکان کی تقرریوں اور اس کے اختیارات و ذمہ داریوں کے معاملہ میں دفعہ 213 سے 221 تک آئین کا پورا ایک چیپٹر موجود ہے جس میں الیکشن کمشن کی ایک خودمختار ادارے کی حیثیت متعین کی گئی ہے۔ آئین کی دفعہ 218 ، 219 کے تحت انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور قانون کے مطابق شفاف انعقاد اور اسی طرح انتخابی دھاندلیوں کی روک تھام کے انتظامات، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابی فہرستوں کی تیاری اور سالانہ بنیادوں پر ان فہرستوں پر نظرثانی کی ذمہ داری پاکستان الیکشن کمشن کو ہی تفویض کی گئی ہے اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کے معاملہ میں آئین کی دفعہ 220 کے تحت وفاق اور صوبوں کی تمام انتظامی اتھارٹیز کو الیکشن کمشن کے ساتھ معاونت کا پابند کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں انتخابی فہرستوں کی تیاری سے شفاف انتخابات کے انعقاد تک الیکشن کمشن نے ہی انتظامات کرنے ہیں اور اس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وسائل کی فراہمی سمیت تمام امور میں کمشن کی معاونت کرنی ہے۔ آئینی ماہرین اس حوالے سے واضح رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ کوئی قانون یا آرڈی ننس آئین کی کسی شق کومعطل کر سکتا ہے نہ اس کی جگہ لے سکتا ہے۔ چنانچہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ ای وی ایم کا قانون آئین کی متعلقہ دفعات کو بادی النظر میں بائی پاس نہیں کر سکتا اور اسی بنیاد پر اپوزیشن قائدین کی جانب سے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس صورت حال میں اگر حکومت انتخابات ای وی ایم پر منتقل کرنے کے لئے الیکشن کمشن پر دبائو بڑھائے گی اور اسے فنڈز کا اجراء روکا جائے گا تو اس سے ملک میںسیاسی محاذ آرائی بڑھنے کے علاوہ ایک نیا آئینی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت الیکشن کمشن کو فنڈز جاری نہیں کرے گی تو اس کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی سمیت تمام اخراجات میں تعطل پیدا ہوگا جس سے الیکشن کمشن کی بقاء بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حکومت کی سیاسی ترجیحات اپنی جگہ مگر الیکشن کمشن کی بقاء کے لئے خطرات پیدا کرنا انتخابات کے پورے پراسس کے لئے خطرات کا باعث بن سکتا ہے چنانچہ حکومت کو اس معاملہ میں سوچ سمجھ کر ہی کوئی اقدام اٹھانا چاہئے۔ بہتر یہی ہو گا کہ اپوزیشن اور الیکشن کمشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ای وی ایم کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے اور سیاسی محاذ آرائی بڑھا کر سسٹم کے لئے کسی قسم کے خطرات پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔