مقروض ممالک کی’’معاشی آزادی‘‘
مقروض ملکوں اور قوموں کی کوئی بساط نہیں ہوتی کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کر سکیں ۔ایسی صورتحال میں حتمی طور پر عوام الناس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ روزوشب پاکستان بننے کے بعد سے جاری ہے ۔جنرل ایوب دورمیں 20خاندان امیر ترین تھے وہی سرمایہ دار وہی کاروباری وہی بااثر اور باوقار باقی سب تقربیاًبے انتہا خوار ۔اندازًاس زمانے میں ہر شہری 20ہزار روپے کا مقروض تھا اب شاید ایک لاکھ 25ہزار سے زائد فی کس ہے ۔تمام حکومتیں قرض اتارنے کے لیے قسط کی خاطر قرض لیتے رہے اور لے رہے ہیں اور قرضہ بڑھ رہا ہے ایوبی دور صنعت کی ترقی ہوئی 8%سے زائد گروتھ تھا اور جنوبی کوریا نے پاکستان کی پلاننگ کو اپنے ہاں ترقی اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا اور آج تقربیاً420ارب ڈالر کرنسی کے اثاثے ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے ۔شاید ایوب خان کے دس سالہ دور کے بعد پانچ سالہ منصوبے نہیں بنے ۔بہرحال سیاسی زندگی کی افراتفری اور روز افزوں ہڑتالیں اور احتجاج اور اداروں میں بے ضابطگیوں نے اور فوجی اور سول حکومتوں کی آئین اور قانون شکنی اور کرپشن نے رہی سہی کسر نکال دی ۔1965کی جنگ اور پھر 1971کا سانحہ سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا اہم حصہ اور موڑ ہیں ۔ان واقعات یاحادثات سے عام آدمی کی حالت سے بدتر ہوتی چلی گئی مگر امیر خاندانوں کی تعداد میں کثیر اضافہ ہوا سابقہ ادوار میں سرکار سے منسلک اعلیٰ دولتمند خاندان کم تھے کچھ فوجی اور سول سروس سے متعلق افراد کے علاوہ اب 30سال کا عرصہ بڑا اہم ہے سب نہال ہیں ۔سیاست دان،فوجی او رسول ملازمین بعض اعلیٰ عدالتوں کے جج اور وکیل اور صنعت کار پاکستانی سیاست اور معیشت پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں ۔دنیا کا کونساملک ہے چاروں براعظوں میں جہاں پاکستان کے اہم شخصیات بڑے اکاؤنٹ ،جائیدادیں ،زمین ،جزیرے اور محلوں سمیت بڑے بڑے کاروبارکی حامل نہیں ۔امریکہ ،برطانیہ ،سنگاپور ،ملیشاء ،دوبئی ،سعودی عرب ،یورپ ،جنوبی امریکہ اور بیشتر ملک مگر ان کا سرمایہ محفوظ وہ بھی محفوظ کیونکہ ان کی معیشت کا اہم حصہ ۔وہ جو از تلاش کر لیتے ہیں Extralitc،نہ کرنے کا ۔اسحاق ڈار اور کئی دیگر افراد کا معاملہ سامنے ہے اب دیکھے نواز شریف اور ان کے بیٹوں اور شہباز شریف کے اہل خانہ پر کیا کاروائی ہوتی ہے برطانیہ میں پاکستان بھیجنے کے حوالے سے۔ان کی معیشت مضبوط اور ہماری کھوکھلی اس پر کبھی ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں تو کھبی دھشت گردی کے الزامات کبھی بجلی ،گیس پٹرول وغیرہ پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا دباؤ تو کبھی مخصوص منصوبوں کی پابندی ۔مقروض پاکستان مجبور مخص ۔کیا واقعی قرضوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں یا پھر ہمارے حکمران اور حکومتیں اپنے اقتدار کے علاوہ صرف اپنے مالی مفادات پر منحصر رہے گے اور عام آدمی غربت کی چکی میں پستا رہے گا کیا پاکستان صرف سیاستدانوں ،اعلیٰ سول ملازمین ،جرنیلوں اور جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے لیے بنا ہے اور پھر آزادی کی جہدوجہد میں واقعی ان کا کوئی بڑا کردار تھا جواب یہ ہوگا محدود چند افراد کے علاوہ کوئی نہیں ۔قائداعظم ،لیاقت علی خان اور کچھ دیگر اس قافلے کے سالار تھے اور برصغیر کے مسلمان عوام مگر سب سے زیادہ ترقی اور مفادات کا حصول ان کے لیے ہورہا اور ہے جن کا ذکر میں نے کیا ہے ۔پاکستان کو ہر دور میں بیچنے کی کوشش ہوئی ہوس اقتدار میں کھبی امریکہ ،برطانیہ اور یورپ اور کبھی مڈل ایسٹ اور دیگر کے ہاں ملکی مفادات اور قومی ترجیحات شاید اب بھی کل کی طرح بعد ازاں نظر آتی ہیں ۔نجکاری کا سلسلہ سال 2000سے شروع ہوا اور طے ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں جو صنعتیں اور ادارے قومیائے گئے اور جن کی وجہ سے ملکی معیشت اور خزانے پر خاصا بوجھ ہے ان کو فروخت کر دیا جائے ۔دراصل یہ سب بھی بین الاقوامی دباؤ میں ہوا شاید ہمارے قومی فیصلہ ساز بھی اس کا حصہ ہوں کیونکہ مال بنانے کا عمل خاصا ترقی کر رہا ہے بہرحال پرائیوٹائزیش کمیشن 2000بنایا گیا اور اس میں 10%غربت کے خاتمے اور باقی 90%قرضے ادا کرنے کا طے ہوا ۔یہ قانون سازی جہاں نج کاری کے چیرمین اور افسران کے لیے خصوصی نعمت کا سبب بنی وہاں نہ غریب کو کچھ ملا اور نہ ہی قرضے ختم ہوئے ۔سٹیل ملز بکتے بکتے بچی ۔جنرل قیوم جب چیرمین تھے بے نظیر حکومت میں منافع بخش سلسلہ شروع تھا سٹاک بھی تھے اربوں کے مگر اندرونی سازشوں اور کراچی کے ملازمین پچھلی حکومت میں نقصان در نقصان کا سامنا ہو گیا اور نجکاری کی نوبت آگئی ۔سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی نجکاری رک گئی ۔حکومتی تحویل میں کئی کارخانے نقصان میں سال ہا سال رہے مگر جب فروخت ہوئے تو دن دگنی اور رات چگنی ترقی اور منافع حاصل ہوا۔دراصل ان اداروں کے سرکاری افسران اور متعلقہ افراد کا کمال تھا پی ٹی سی ایل ،منافع میں تھا مگر دوبئی والوں کو بیچ دیا گیا جن کے ذمے کئی سالوں سے ایک ارب ڈالر سے زائد قابل ادائیگی ہیں مگر متنازعہ اثاثوں کے حوالہ کرنے کا ہے ویسے قوم کو کب اصل حقائق سے آگاہ کیا جاتا ہے قوم فروختن نہ ارزاں فروختن ؟
پی پی حکومت بے نظیر نے جب کوٹ اددؤ پاور بیچا تو آنے والے وقت کی مشکلات نظر نہ آئی عرصہ تک یہ ڈیل راز میں رہی کس نے کیا کمایا اس منافع بخش ادارے کی فروخت میں بہت کچھ اور بھی ہوا ۔ابن خلدون نے کسی بھی کاروباری شخص کو حکومت میں شامل کرنے سے منع کیا اور افلاطون نے بھی یہ ہی کہا تھا کہ تاجر سب سے پہلے کاروباری منافع پر نظر رکھتا ہے ۔حکمران گڈرئیے کی طرح ہوتا ہے وہ اپنے گلے کی سب مصیبتیں اپنے سر لیکر تحفظ فراہم کرتا ہے پاکستانیوں کیایسے نصیب کہاں ۔آجکل عمران حکومت ایک طرف حزب اختلاف کی تنقید اور مخالفت کا شکار ہے تو دوسری طرف مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل سے دوچار قوم کو وعدہ فردا کا پیغام ہے ترقی اور خوشحالی کا جو فی الحال جو کافی مشکل نظر آتا ہے ۔حکومت نے دوسال میں اس قدر قرضے لیے کہ پچھلی حکومت کے پانچ سال کے برابر قرار دیا جارہا ہے سٹیٹ بنک،باقاعدہ رپورٹس شائع کر رہا ہے ۔سینٹ کے اجلاس میں میں تازہ انکشاف ہوئے ایک لمبی لسٹ نجکاری کے حوالے سے آئی ہے جس میں اوجی ڈی سی ایل جیسے منافع بخش ادارے بھی شامل ہیں بقیہ میں ایچ ایم سی بجلی اور انجیرنگ کے ادارے شامل ہیں ۔سٹیل ملز کا نام بھی موجود ہے گو کہ بتایا جاتا رہا کہ ایسا نہیں ہوگا ۔ایک ریزویوٹ ہوٹل نیو یارک میں پاکستان کا نشان ہے۔