ٹی وی نامہ پاک چین کو پروڈکشن ’’رِشتے اور راستے‘‘ 2
ذکر ہو رہا تھا نومبر 1985 میں ہمارے چین کے ریکی ٹُوور کا تا کہ ہم چینی فنکار اور چینی لوکیشنز منتخب کر سکیں۔ یہ دورہ ویسے تو ڈیڑھ ہفتے کا تھا مگر ہماری بے انتظامی (وفد کا دو حصوں میں چین جانا) اور کچھ شومی ٔ قسمت ، بیجنگ میں قیام قدرے طویل ہو گیا تاہم چینیوں نے ہمیں دن رات مصروف رکھ کے کسی حد تک اس تاخیر کی تلافی کر لی ۔چینی خاصی سیانی قوم ہے۔ شومئیِ قسمت سے بیجنگ میں اپنا سوٹ کیس ٹوکیو پہنچاتے اور اُس طوطا رُخ پی آئی اے کے ا سٹیشن مینیجر کے سرا سر کذب پر اُستوار وعدوں کی مار کھاتے ہی میرے دائیںطرف کے ایک دانت میں شدید درد شروع ہو گیا۔ میں چارپانچ دن بیجنگ کے ایک معتبرہسپتال سے اپنے دانت کی روٹ کینالنگ کراتا رہا مگر چینیوں کی دندان گری کے باوجود ، جس کے چرچے کراچی میں بہت ہیں، میرا دانت ٹھیک نہ ہُوا، جسے بعد ازاں نکلوانا ہی پڑا کہ ’’علاجِ دنداں، اخراجِ دنداں‘‘ ہی ہوتاہے۔ آصف اعجاز کی سربراہی میں باقی ٹیم یعنی نثار مرزا چند دنوں بعد بیجنگ پہنچی اور ہمارا ریکی سفر شروع ہُوا۔ اس دوران میں، کم از کم بیجنگ کے قیام کے دنوں میں، حبیب صاحب اُس معنک طوطا رُخ پی آئی اے افسر سے میرے سوٹ کیس کے بارے استفسار فرمایا کیئے مگر وہ بد نصیب ہمیشہ ٹرخایا کیا۔ حتی کہ میںنے ٹورانٹو میںسن ۲۰۰۰ء کے اواخر میں جب اُسے ائیر پورٹ پر جا لیا ،کہ اُس کی بُوتھی، پندر ہ برس کی نحوست زدگی کے باوجود نا قابلِ فراموش تھی، اور اُس سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی بیجنگ میں بھی تعینات رہا ہے؟ تو اُ س کم نصیب نے مجھے ایک نظر دیکھنے کے بعد صاف انکار کردیا!ثابت ہُوا گئے دنوں میں میری بُوتھی بھی ناقابلِ فراموش رہی تھی۔بیجنگ کے اُس قیام میں میرا مترجم (نام بھول رہا ہوں شاید ’چھن‘)خاصے کی چیز تھا۔ وہ صبح نو بجے ہوٹل آ جاتا، میرے ساتھ ہسپتال جاتا اور میرے دانت کی روٹ کینالنگ کے بعد ہم آوارہ گردی یا تھوڑا بہت کام کرلیتے اور شام ہوتے ہی ہوٹل واپس آ کر وہ ٹی وی کے سامنے پھسکڑا مار کر یہ کہتے ہوئے بیٹھ جاتا،’’ Come on, let"s watch Hong Cong trash ‘‘وہ بتاتا کہ وہ اپنی بیوی اور کم سِن بچے کے ساتھ دو چھوٹے کمروں کے فلیٹ میں رہتا ہے ۔ فلیٹ کاکرایہ، بجلی پانی گیس کا خرچہ حکومت برداشت کرتی ہے اور وہ ڈیڑھ سو یوآن(اُس وقت کے ساڑھے سات سو پاکستانی روپے) تنخواہ پاتا ہے جس میں سے وہ دس فی صد بچاتا ہے تا کہ امریکہ جا کر انگریزی کی مزید تعلیم حاصل کر سکے ۔ اُن دنوں چین کی اخلاقیات کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ساتھdating کرتا پایا جاتا تو لازماً اُن دونوں کو شادی کرنا پڑتی تھی، پورے چین میں چوری، ڈاکہ اور قتل مفقود تھے۔ کہیں لڑائی جھگڑا نہ ہوتا( ہاں شنگھائی ائیر پورٹ پر ہم نے دور سے چند چینیوں کو آپس میں زبانی کلامی جھگڑتے ضرور دیکھا تھا۔بس) بیجنگ میں علی الصبح ہی زندگی پورے جوبن پر آ جاتی تھی۔ علی الصبح وہ لوگ سڑکوں کے کنارے متعدد ٹکڑیوں میں یوگا ٹائپ ورزش کرتے، بسوں میں وہ ٹھُنس کر سواری کرتے بسیں دودو نتھی ہو کر بجلی سے چلتیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بائیسکلیں صبح سویرے چوڑی سڑکوں پر نکل آتیں، کسی کسی سائیکل کے آگے ہینڈل کے ساتھ پلاسٹک یا شیشے کا ایک بکس ہوتا جس میں کوئی ننھامُنّا بچہ نیم دراز ہوتا، پولیس کا کوئی سپاہی نظر نہ آتا ہاں بہت دور دور کسی چوک میں ایک کیبن میں اکا دُکا کوئی سپاہی ضرور دکھا ئی دے جاتا۔موٹر سائیکل یا پرائیویٹ موٹر کار قطعی ممنوع تھی۔ہاں ٹیکسی کے طور پر دنیا کی بہترین کاریں چلتی تھیں۔ بیجنگ کی کسی بھی سڑک پر کوئی پٹرول پمپ نہ تھا۔پٹرول پمپ شہر کے مضافات میں تھے۔شہر میں صفائی کا انتظام ایسا تھا کہ آپ کو چھوٹے سے چھوٹا کاغذ کا ٹکڑا بھی کہیں پڑانظر نہیں آتا تھا۔ ایک روز میں اورچھِن سڑک پر جا رہے تھے کہ میں نے ایک ادھیڑ عمر شخص کو ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھے دیکھا۔ اُس کے مقابل ایک نوجوان لڑکی نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ لگتا تھا وہ لڑکی اُس آدمی سے جھاڑ کھارہی ہے۔ میں نے چھِن سے پوچھا کیا ماجرا ہے؟اُس نے بتایا کہ اس لڑکی نے کوئی ریپر ٹافی یا چاکلیٹ کھا کر سڑک پر پھینک دیا ہے۔ یہ آدمی جو بازو پر ایک نیلا ربن سا لگائے ہوئے ہے خدائی فوجدار ہے جس نے لڑکی کی یہ حرکت دیکھ لی ہے اور اُسے پکڑ لیا ہے۔ اب یہ اس لڑکی کو جُرمانہ کیئے بنا نہیں چھوڑے گا۔خیر ہمارا ریکی سفر شروع ہُوا۔بیجنگ سے صبح نو بج کر دس منٹ پر اُڑ کر بعد دوپہر ایک بج کر پانچ منٹ پر صوبہ سنکیانگ کے دارالخلافہ اورومچی پہنچے اور ٹھیک چھ بجے وہاں کے ریڈیو اور ٹیلیویژن کے حکام سے میٹنگ کر کے اور ر ات قیام کے بعد ہم کاشغر جانے کے لیے چائنا ائیر کی فلائٹ 1315 میں سوار ہوئے۔ جہاز میں سفر کے دوران میں تھوڑی دیر کے بعد تاج حیدر نے میری توجہ آگے بیٹھے ایک مسافر کی جانب کرائی اوربولے،Isn't he Bob?" "تاج کا لہجہ ایسا تھا جیسے کسی لنگوٹیے کے بارے بات ہو رہی ہو ــ"Bob?" میں نے پوچھا ،’’ کون بوب؟‘‘ ’’رابرٹ میکنامارا!ـ‘‘تاج نے بتایا۔ دیکھا تو چند نشستیں آگے سندھیوں جیسے پیچھے سے چوڑے سر والا ایک امریکی بیٹھا ،ایک طرحدار ، جوانی کے لپیٹے سے آگے بڑھتی امریکن خاتون سے بات کرتا نظر آیا۔ یہ رابرٹ میکنا مارا، ورلڈ بینک کا سربراہ تھا۔کاشغر کے ہوائی مستقر پر چند چینی میکنامارا کے وفد کا استقبال کررہے تھے اور چند اور چینی جن میں ایک انتہائی خوب صورت لڑکی، رین کوٹ میں ملبوس ہمارے استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے۔ دونوں پارٹیاں کاشغر کے اکلوتے پُرانے گوتھک طرز کے ہوٹل، ’’ شنجاک قھ شقھر میھمانخانا‘‘Kashigar Hotel Xinjiang میں مقیم ہو گئیں۔اگلی صبح ، میں اور تاج باہر ہوٹل کے وسیع لان میں نکلے تودھوپ سینکتا تنہا بیٹھا میکنامارا نظر آیا۔ ہم اُس سے تعارف کے لیے اُس کے پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد جب ہم نے بتایا کہ ہم قراقرم ہائی وے کے پس منظر میں ایک فیچر فلم بنارہے ہیں اور کے کے ایچ کی ریکی کے بعد اب چین کی ریکی پر آئے ہیں تو میکنامارا کی دلچسپی اُبلی پڑتی تھی۔ اُس نے بطورِ خاص پوچھا کہ ہم نے کے کے ایچ کی تصاویر تو بنائی ہوں گی۔ ہمارے ہاں کہنے پر اُس نے پوچھا کیا وہ تصاویر اُسے دیکھنے کو مل سکتی ہیں تو ہم نے انتہائی خوش دلی سے کہا کیوں نہیں ۔ تاہم مجھے یاد ہے دل ہی دل میں ‘میں نے سوچا تھا کہ بچو ہم تمہیں اپنی جاسوسی کا موقع ہر گز نہ دیں گے۔اُس دن ہمارے پاس کافی رونق رہی۔ میکنامارا کی وہ طرحدار سیکریٹری بھی ہم سے ملنے آئی اور اس نے میکنا مارا سے ہماری صبح کی ملاقات کا حوالہ دے کر ہم سے قراقرم کے بارے میں باتیں بھی کیں جن میں تصاویر کا ذکر بھی آیا۔ کاشغر سے کئی لڑکے لڑکیاں آڈیشن کے لیے آئے ۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی مائی نورؔ کو ہم نے منتخب کر لیا۔ مائی نور قدرے چھوٹے قد کی ،زندگی سے بھرپور، سُرخ و سفید، حسین ، کاشغری مسلمان تھی مگر اُس کی قسمت میں ’’رشتے اور راستے‘‘ کی ہیروئین بننا نہ تھا۔ظاہر ہے یہ ایک کو پروڈکشن تھی تو چینیوں کے کہنے پر بھی غور کرنا پڑتا تھا۔ چینوں نے یہ کہہ کر مائی نور کو مسترد کر دیا کہ بہتر ہو گا ہم خالص چینی نمائندگی کے لیے کسی خالِص چینی لڑکی کا انتخاب کریں۔ سو کرنا پڑا اور لی سی جے خالص اصلی چینی لڑکی کو لینا پڑا۔ وہ بھی خاصی حسین اور ٹیلینٹڈ تھی ، ماڈلنگ کر چکی تھی۔ لی سی جے نے بہت خوبصورتی سے رول نبھایا۔مجھے یقین ہے مائی نور بھی اُتنی ہی خوبصورتی سے وہ رول نبھاتی۔ رات تمام مہمانوں کی ملی جُلی دعوت تھی۔میکنامارا شریک نہیں تھا مگر اُس کی طرحدار سیکریٹری شامل تھی۔ ڈانس بھی ہُوا اور فانگ کے اصرار پر میں بھی ڈانس میں شریک ہُوا۔ طرحدار سیکریٹری نے بھی میرے ساتھ چندے رقص کیا اور رقص کے دوران وہ قراقرم کو نہیں بھولی۔ میں بھی اُسے ٹرخاتا رہا ۔ مرضی تو اُس کی یہ لگتی تھی کہ میں رات بھر اُسے تصویریں دکھاتا رہوں اور وہ تصاویرکی نقلیں بھی حاصل کرتی رہے۔تاہم اگلی صبح سویرے ہی ہمیں فن کاروں کے چناؤ کے لیے خُتین روانہ ہو جانا تھا، تو اُس کی خواہش میں پوری نہ کرسکا۔معلوم ہُوا یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی امریکن نے سنکیانگ(جسے چینی شنجیان بولتے ہیں) کی سر زمین پر قدم رنجہ فرمایا ہے۔ اس لحاظ سے گویا میکنامارا کولمبس کے درجے پر فائز نظر آتا ہے۔ جب سے مجھے یہ معلوم پڑا تھا میں ایک عجیب ہیجان میں مبتلا تھا کہ امریکہ یہاں بھی آن پہچا ہے! الٰہی خیر ہو۔ اُسی دن مجھے ایک افسانہ سوجھا اور میں نے اُسے لکھنا بھی شروع کر دیا۔ افسانے کا عنوان’’بے ثمر‘‘ ہے اور پہلے وہ حسنین کاظمی کے رسالے’’دائرے میں چھپا پھر ’’ماہِ نو‘‘ میں اور پھر ’’ادبِ لطیف‘‘ میں۔خلاصہ اُس کا یہ تھا کہ امریکہ کی دوستی ہوتی بے ثمر ہے۔یہ افسانہ ایک چینی مترجم لڑکی کی تحریر ہے جو چند دن ایک غیر ملکی وفد کے ساتھ ڈیوٹی پر ہے اور سنہرے بالوں والے ایک مہمان سے متاثر ہو جاتی ہے جو اُسے اپنے وطن کے گیتوں کا ایک کیسیٹ تحفے میں دیتا ہے۔ یہ آدھے پون گھنٹے کی اُس چینی لڑکی کی بے تابی کی داستان ہے اور مجھے پسند ہے۔خُتین جانے کے لیے صحرائے گوبی سے گزرنا پڑتا ہے ۔یہ ریت کے بجائے سنگ ریزوں کا صحرا ہے ،مُنے مُنے گول گول لا تعداد پتھر۔ کمال کا صحرا ہے۔میں راستے بھر وہ افسانہ لکھتا رہا او ر ختین پہنچتے پہنچتے افسانہ مکمل ہو چکا تھا۔(جاری ہے)