پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں فرقہ واریت کی بنیاد پر انتہاپسندی کیا کرتی تھیں جبکہ سیاستدان انتہا پسندی سے دور رہتے تھے مگر رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں کے رویے بھی انتہاپسندانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کل جس نوعیت کی سیاست کی جارہی ہے، اس سے خانہ جنگی کے خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ ایک سیاسی مفکر نے درست کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس کا عملی مظاہرہ پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ کرونا کی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دنیا کے امیر ترین ممالک بھی اس موذی وبا سے عاجز آچکے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں کرونا کے خاتمے میں کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات کے لیے عوام کو اس موذی وباء میں مبتلا کرنے کے درپے ہیں۔ ہمیں ان وجوہات اور اسباب کو تلاش کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے سیاست میں انتہا پسندی کے رویے جنم لے رہے ہیں۔ انتہا پسندی اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ بعض اوقات تو ریاست بھی اس انتہا پسندی کے سامنے عاجز نظر آتی ہے اور اسے کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا 12 جنوری 1967ء پاکستان آبزرور میں ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں انہوں نے تحریر کیا ’’اگرچہ میں پیدائشی طور پر ایک زمیندار ہوں اور تعلیمی لحاظ سے ایک وکیل ہوں مگر سیاست مجھ میں جوش پیدا کرتی ہے اور میرے دل میں لازوال شمع روشن کرتی ہے۔ سیاست ایک اعلیٰ اور برتر سائنس ہے اور بہترین آرٹ ہے۔ سیاست شفاف ہونی چاہیے، یہ منفی رجحانات کی حامل نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ سیاست کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے سیاست سے سیاست کی ہے۔ ہم نے آرٹ کو تباہ کیا ہے۔ عوام اب ایسے سیاستدانوں پر ہرگز اعتماد نہیں کریں گے جو ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور لالچ و حرص کی وجہ سے اصولوں کو ترک کردیتے ہیں۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کی یادگار تحریر نصف صدی گزر جانے کے باوجود پاکستان کی آج کی سیاست پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے سیاسی نظام تبدیل نہیں کیا، البتہ مختلف اوقات میں ہم چہرے بدلتے رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب تک سیاسی نظام کو تبدیل نہیں کیا جائیگا، اس وقت تک سیاست مفادات کے اردگرد ہی گھومتی رہے گی اور اس میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
لارنس زائرنگ عالمی شہرت یافتہ محقق اور مصنف ہیں۔ انہوں نے اپنی مقبول کتاب At the cross current of historyمیں تحریر کیا ہے۔
’’جناح کا ویژن آئینی نظام کو رائج کرنا تھا، علاقائی مفادات میں کشمکش اور تضاد کی بنا پر اداروں کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں تھا۔ علاقائی مفادات کی سوچ کے حامل مقتدر افراد فعال اور متحرک ریاست کے قیام کی بجائے اپنے مفادات اور ذاتی اقتدار پر مفاہمت کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ جن سیاستدانوں کو ریاست ٹرانسفر ہوئی انہوں نے اپنے محدود مفادات کو ترجیح دی اور قوم کو اپنے مقدر اور بد قسمتی کو اندھیرے میں اِدھر اُدھر ٹٹولنے پر چھوڑ دیا۔ اسکے نتیجے میں محمد علی جناح کے تصور اور نظریے کے مطابق پاکستان کی تشکیل کا مقصد آج تک پورا نہیں کیا جا سکا‘‘۔ یہ ہے وہ بنیادی سبب جس کی بنا پر پاکستان آج تک مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے جن میں مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر پاکستان کی تعمیر اور تشکیل قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بنیادی تصورات اور نظریے کیمطابق کر دی جاتی تو پاکستان کو آج کی سنگین اور حساس نوعیت کی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور پاکستان کی سیاست کا معیار بہت بہتر ہوتا۔
سابق آئی جی پولیس اظہر حسن ندیم صاحب کی تازہ کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جس کا نام ہے۔ Pakistan politics of misgoverned جس میں وہ لکھتے ہیں ’’گورننس کی مختلف نوعیت کی کمزوریوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ان اصولوں کو ترک کردیا جن پر ریاست کی شان دار عمارت کو تشکیل دیا جانا تھا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد جاگیردار اشرافیہ نے بالادستی اختیار کر لی۔ مسلم لیگ اور ریاست آسانی کے ساتھ بیوروکریسی، جاگیرداروں اور فوج کی بڑھتی ہوئی طاقت کا شکار ہوگئے۔ ان طبقات کا مفاد کلونیل دور کے استحصال اور کشید کرنیوالے اداروں کو قائم رکھنا تھا’’ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اللہ نواز اپنی اعلی تحقیق پر مبنی کتاب How can Pakistan survive میں لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلام محمد سکندر مرزا محمد علی جنرل ایوب خان اور جاگیردار سیاستدانوں نے پاکستان کی ریاست کو تحریک پاکستان کے مقاصد کے مطابق تشکیل نہ ہونے دیا جس کے نتیجے میں پاکستانی قوم صرف جغرافیائی آزادی حاصل کر سکی مگر وہ فکری اور ذہنی آزادی حاصل نہ کر سکی۔ پاکستان میں انگریزوں کے قوانین رائج ہیں۔ پاکستان میں جو بھی نئی قانون سازی ہوئی ہے وہ قوانین اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینے اور ان کو آگے بڑھانے کیلئے ہی بنائے گئے۔
پاکستان اور عوام دوست محب وطن مؤرخ محقق و مصنف اور دانشور متفق ہیں کہ جب تک انگریزوں کا رائج کردہ ریاستی نظام تبدیل نہیں کیا جاتا۔ اس وقت تک پاکستان مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار رہے گا۔ انگریزوں کے ریاستی نظام کی سرشت میں انتشار، اختلاف، تشدد، انتہا پسندی عدم مساوات موجود ہے لہٰذا اس نظام کی موجودگی میں صاف شفاف اصولوں پر مبنی سیاست کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور کے مطابق پاکستان کے سیاسی انتخابی اور معاشی نظام کی تشکیل نو کر دی جاتی تو آج پاکستان بہت بہتر صورتحال میں ہوتا اور اسے مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا بڑا سبب جمہوری اور انتخابی نظام ہے جسے سماجی یعنی پورے سماج کیلئے اور روحانی یعنی اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم جمہوریت اور سیاست کو آئین اور قانون کی حکمرانی کے تابع نہیں کرتے اس وقت تک ریاست کی رٹ رائج نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی اور شدت پسندی کو ختم کیا جا سکے گا۔ ایسا جمہوری اور سیاسی نظام جو سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا سبب بن جائے اور جس کے نتیجے میں معاشی ترقی ہی رک جائے، اس نظام میں معروضی حالات کے مطابق انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق بنانے کیلئے قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔ ایسی سفارشات پر اتفاق رائے قائم کیا جائے جن کے نتیجے میں جمہوری اصولوں کے عین مطابق صاف شفاف سیاست کا آغاز کیا جا سکے۔ وراثتی اور خاندانی سیاست ختم کی جا سکے اور ایسی سیاست کو رائج کیا جا سکے جس میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو اور پاکستان کے تمام افراد کو بلا تفریق بلاامتیاز سیاست میں حصہ لینے کے مواقع مل سکیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38