جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود علالت کے باعث انتقال کر گئے۔
محمد خان محسود کافی عرصے سے علیل تھے اور وہ راولپنڈی کے آرمڈ فورسز اسپتال میں زیر علاج تھے۔ان کے بیٹے فرید اللہ نے والد کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد خان محسود کا آج صبح قضائے الٰہی سے انتقال ہوگیا ہے اور اس افسوسناک خبر سے متعلق اہل خانہ کو اطلاع کردی گئی ہے۔فرید اللہ کا کہنا ہے کہ والد کی میت کو جنوبی وزیرستان میں آبائی علاقے مکین منتقل کیا جارہا ہے جہاں نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعد تدفین کی جائے گی۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے محمد خان کے بیٹا نقیب اللہ ان 4 مشتبہ افراد میں شامل تھا، جنہیں گزشتہ برس کراچی میں سابق انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی جانب سے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں 'انکاؤنٹر' میں مار دیا گیا تھا۔راؤ انوار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارے گئے افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے تھا لیکن اس کالعدم تنظیم کے جنوبی وزیرستان چیپٹر کے ترجمان نے راؤ انوار کے اس دعوے کو 'بے بنیاد' قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نقیب اللہ کا ان کی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ نقیب اللہ کے اہل خانہ نے بھی سابق ایس ایس پی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کا کسی عسکری تنظظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔نقیب اللہ جن کا شناختی کارڈ پر نام نسیم اللہ تھا ان کے بارے میں ایک رشتے دار نے بتایا تھا کہ نقیب دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا بہت شوق تھا۔اس تمام معاملے پر عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا جبکہ جنوری میں کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ اور دیگر 3 لوگوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے چاروں افراد کے خلاف درج مقدمات کو خارج کردیا تھا۔بعد ازاں مارچ میں اے ٹی سی نے جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار اور 17 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔تاہم اس کیس میں راؤ انوار سمیت سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قمر ضمانت پر ہیں جبکہ دیگر آٹھ ملزمان اس کیس میں جیل میں ہیں، اس کے علاوہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ اس کیس میں مفرور ہیں۔