آج مقبوضہ کشمیر کے کرفیو اور لاک ڈاون کو ایک سو بیس روز مکمل ہو گئے ہیں۔ اس محاصرے نے مہذب دنیا کی تہذیب کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں۔ اس کرفیو اور لاک ڈاون نے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے دعووئں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ بھارتی فوج کے مظالم نے ان تمام امن پسندوں کے امن و امان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے جو دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کے علاوہ بہتا خون دیکھ کر تڑپ تڑپ جاتے ہیں۔ وہ تمام سماجی کارکن، انسانی حقوق کے لیے چیخنے چلانے والے اور دنیا کو ایکشن لینے کے لیے مجبور کرنے والے نجانے کہاں گم ہیں۔ خون مسلماں اتنا ارزاں ہو چکا کہ انہیں انسان سے بدتر سمجھا جا رہا ہے۔ کہیں ایسی مثال ملتی ہے کہ ایک سو بیس دن تک ایک حکومت اسی لاکھ سے زائد انسانوں کے بنیادی حقوق چھین لے اور دنیا میں کہیں کوئی ردعمل سامنے نہ آئے۔ کیا اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو یرغمال بنا لینا، انکی آزادی چھین لینا، ہر عمر کے انسانوں کو قید کر لینا، ٹیلیفون، موبائل سمیت رابطے اور معلومات کے تمام ذرائع بند کر دینے کے بعد بھی کشمیریوں کو اپنا درد سنانے، اقوام متحدہ کو جگانے، مسلمان بھائیوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اور کیا کرنا پڑے گا۔۔۔
آج ایک سو بیسواں دن ہے روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ اول پر روزانہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے اشتہار شائع ہوتا ہے۔ یہ اشتہار کم از کم ان تمام پاکستانیوں اور دنیا بھر میں مظلوموں کا درد محسوس کرنے والوں کو یہ یاد تو کرواتا ہے کہ کشمیر پر متعصب، انتہا پسند اور ظالم نریندرا مودی کا قبضہ ہے۔ یہ اشتہار کشمیر کے نام پر سیاست کرنے والوں کے لیے بھی یاددہانی ہے، یہ اشتہار کشمیر کو اپنے سے زیادہ اہم سمجھنے والوں کے لیے بھی پیغام ہے۔ یہ اشتہار امام صحافت اور معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی مرحوم کی کشمیر سے وابستگی اور کشمیریوں کے ساتھ محبت کی یاد دلاتا ہے۔ یہ اشتہار ملک کے تمام فیصلہ سازوں کو یاد کرواتا ہے کہ آپ کشمیر کو بھول سکتے ہیں ہم نہیں، آپ کشمیر کو نظر انداز کر سکتے ہیں ہم نہیں، آپ کشمیر پر سمجھوتا کر سکتے ہیں ہم نہیں، آپ کشمیر پر مصلحت سے کام لے سکتے ہم نہیں۔
آج کشمیر کے اسی لاکھ انسان صرف اس لیے مشکل زندگی گذار رہے ہیں کہ وہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کے ماننے والے ہیں۔ ان پر زندگی اس لیے تنگ کر دی گئی ہے کہ وہ ہندو بنیے کی سوچ کے خلاف ہیں۔ انہیں گھروں میں اس لیے قید کر دیا گیا ہے کہ جنونی ہندوؤں کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ کیا کسی مسلم ملک میں چرچ، مندر یا کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے لیے انکی عبادات کے راستے میں کوئی رکاوٹ ہے اگر نہیں ہے تو پھر مقبوضہ کشمیر میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی کیوں ہوتی ہے محرم الحرام میں جلوسوں پر تشدد کیا گیا کیا یہ ظلم دنیا کے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے کافی نہیں ہے۔ بھارت بیک وقت مذہبی، سیاسی اور معاشی دہشت گردی کرتے ہوئے کشمیریوں کی حیثیت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم کسی بھی طریقے سے اپنی شہ رگ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں نبھا سکے۔ وہ جو ساری عمر کشمیر کے نام پر سیاست کرتے رہے آج کہیں نظر نہیں آ رہے۔ جن کی سیاست کا محور کشمیر رہا آج وقت آیا ہے تو ان کے پاس کشمیر پر بات کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔
آج ملک میں کوئی مجید نظامی نہیں ہے جو بھارت کو للکارے جو حکمرانوں کو یاد دلائے، جو دنیا میں کشمیریوں کی آواز بنے، جو کسی مالی مفاد کے بجائے حقیقی معنوں میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہو۔ مجید نظامی کے بعد آج ملک میں کوئی قلمی مجاہد نہیں جو اپنی ملی، مذہبی و اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے میدان عمل میں نظر آتا ہو۔ وہ مجید نظامی جو امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو شیطانی ثلاثہ کہہ کر پکارے اور ساری دنیا کو بتائے کہ یہ تینوں مل کر کیسے کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا خون کر رہے ہیں۔
کیا شدت پسند، انتہا پسند اور مسلم نسل کشی کے منصوبوں پر عمل کرنے والی نریندرا مودی کی حکومت کے کرفیو اور لاک ڈاون کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کے یہ ایک سو بیس دن جانوروں کے حقوق کے لیے تڑپنے والوں کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ نئے کپڑے پہن کر، مہنگی خوشبوئیں لگا کر عالمی فورمز پر انسانی حقوق کے لیے تقریریں کرنے والوں کے چہروں پر کشمیریوں کے خون کے چھینٹے، وہاں ہونے والی خواتین کی عصمت دری اور بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے داغ کیسے دھلیں گے۔
ایک سو بیس دن گذر گئے، بھارت نے جو کرنا تھا کر لیا ہے بلکہ وہ اس سے بھی آگے جائے گا آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہوتی چلی جائے گی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ درست ہے کہ ہم اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہیں، سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی شہ رگ ازلی دشمن کے ہاتھ دے دیں۔ حکمران یاد رکھیں طاقت، اقتدار اور اختیار اللہ کی امانت ہے اور مسلمانوں کے خون کا سودا کر کے، مسلمان بہنوں کی عصمتوں پر آنکھیں بند کر کے ہم اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور امانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یاد رکھیں کشمیریوں اور اس مقصد کے لیے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں سے وعدہ خلافی کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ یہ وقت ہے جب کشمیریوں کو ہماری ضرورت ہے بعد میں پچھتاوے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ہم سب کو کشمیر کی پکار پر لبیک کہنا چاہیے۔ طاقتور معیشت بھی جنگ میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے تو کمزور معیشت کی وجہ سے خوف کیوں طاری ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024