مقبوضہ کشمیر : آبادی کا تناسب بدلنے کامذموم منصوبہ
چناروں سے سجی اورزعفران سے مہکتی ہوئی سرزمین وادیٔ جموں و کشمیر کو جب مغل فرمانروائوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ان کا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ ’’ کشمیر جنّت نظیر وادی ہے‘‘ ۔ ظاہر پرست تو شاید وادی کے حسن و جمال کی وجہ سے اسے زمین پہ جنت کی مثل قرار دیتے ہوں لیکن کرشماتی نگاہ اور عشاق جموں و کشمیر کو محض اس وادی کے مناظراتی حسن و جمال و دلکشی کی وجہ سے اسے جنت کی مثل قرار نہیں دیتے بلکہ وہ ’’ درگاہِ حضرت بل میں موجود سرکارِ دو جہاںؐ کے موئے مقدسہ کی وجہ سے وادیٔ جموں و کشمیر کو زمین پہ جنت کی مثل گردانتے ہیں‘‘۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ تقسیمِ ہند کے وقت ریاست کشمیر کی مسلم اکثریت کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں لیکن بھارت نے ڈوگرہ حکمرانوں کے نام سے جعلی دستاویز گھڑلی اور اس جعل سازی کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت نے تمام بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کر لیا جس پر کشمیری مسلمانوں نے ایک بار پھر جد و جہد آزادی کا آغاز کر دیا کیونکہ وادی کشمیر کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی تھی۔ اس وقت انگریز آفیسر جنرل گریسی پاک افواج کے سربراہ تھے ، بانی پاکستا ن قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کی طرف پیش قدمی کرے لیکن اس نے واضح حکم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا تو اس ساری صورت حال میں کشمیری حریت پسندوں نے غاصب بھارتی افواج کے خلاف باقاعدہ گوریلا جنگ کا آغاز کر دیا اور جلد ہی مجاہدین نے مقبوضہ وادی کشمیر کے ایک وسیع و عریض علاقے کو بھارت کے غاصب افواج سے وا گزار کروا لیا۔ جب بھارتی حکومت نے پورا کشمیر ہاتھ سے جاتے دیکھا اور شکستِ فاش کا مزہ قریب قریب چکھ لیا تو بھارتی حکومت جنگ بندی کی دہائی دینے خود اقوامِ متحدہ پہنچ گئی جہاں جواہر لال نہرو حکومت نے اقوامِ عالم کے سامنے وعدہ کیا کہ اگر جنگ بند کردی جائے تو بھارتی حکومت کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے کیلئے استصواب رائے دہی کا حق دے گی اور کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے میں آزاد ہوں گے۔ لیکن آج تک بھارتی لیڈر اس وعدہ کو ایفا نہ کر سکے اور مسلسل اپنے وعدوں سے انحراف کر رہے ہیں۔ 5اگست 2019ء کو بھارت میں انتہاپسند ہندو تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے انڈین آئین سے آرٹیکل370اور 35اے کا خاتمہ کر دیا ۔ اس اقدام پر کشمیری سراپا احتجاج ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل116ویں روز بھی بھارتی لاک ڈاؤن جاری ہے۔ بڑھتی ہوئی سردی نے بھی پہلے سے مشکلات کا شکار کشمیریوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں خوف و ہراس کا ماحول اور غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، دفعہ 144کے مسلسل نفاذ کے باعث معمولات زندگی مسلسل مفلوج ہیں۔ دکانیں، تجارتی مراکز، اسکول اور دفاتر بند ہیں جب کہ انٹرنیٹ ، موبائل فون سروسز بھی بدستور معطل ہے۔
جہاں تک بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35-A کا تعلق ہے یہ خود مختار ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے پیش نظر بھارتی آئین میں شامل کی گئی تھیں۔ سب سے پہلے 1927ء میں مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر میں غیر کشمیریوں کی آباد کاری کو روکنے کیلئے حق باشندی کا قانون یا سٹیٹ سبجیکٹ لاء نافذ کیا تھا۔ اس کے تحت کوئی غیر ریاستی یا غیر ملکی باشندہ یہاں سکونت اختیار نہیں کر سکتا تھا اور نہ کسی کو یہاں کسی قسم کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد خریدنے کا حق تھا۔ تقسیم کے بعد بھارت نے بزور طاقت کشمیر پر قبضہ کر لیا ۔ نومبر 1949ء میں بھارتی آئین کی تشکیل کے وقت اس میں دفعہ 370 شامل کی گئی جس میں ریاست جموں و کشمیر کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا۔ پھر 1952ء میں مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ اور بھارتی وزیر اعظم نہرو کے مابین دہلی معاہدہ طے پایا جس میں PR یعنی حق باشندی کے قانون کو قائم رکھنے اور اسے بھارتی آئین میں شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔بعد میں 1954ء میں کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بخشی غلام محمد کے دور میں دفعہ-A 35 بھارتی آئین میں شامل کی گئی۔اس کے تحت جموں و کشمیر کے مستقل رہائشی ہی ریاست میں حقوق اور مراعات حاصل کر سکتے ہیں اور غیر ریاستی افراد نہ یہاں جائیداد خرید سکتے ہیں نہ مستقل رہائش اختیار کر سکتے ہیں اور نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی آبادی تقریباً 70 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور اس کا 97 فیصد مسلمان ہیں لیکن وہ بھارتی فوج اور پولیس کے نرغے میں ہیں اور وہ بھارتی قبضے سے آزادی چاہتے ہیں۔مسلم دشمن نریندرمودی حکومت نے 2014ء میں بر سر اقتدار آتے ہی بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرا دی تھی جس میں بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کو ختم کرنے کامطالبہ کیا گیا۔ 2015 ء میں ریاستی حکومت کی جانب سے ہندو پنڈتوں کی مکمل واپسی کے ساتھ سکولوں، شاپنگ مال، ہسپتال اور کھیلوں کے میدانوں کی تعمیر کا منصوبہ تجویز کیا گیا تھا اور نقشے کا افتتاح بھی کیا گیا تھا۔کشمیریوں کی جانب سے اس منصوبے کی سخت مخالفت کی گئی تھی اور اس کو فلسطینی علاقے میں اسرائیلی تعمیرات سے تشبیہ دی تھی۔ بی جے پی کے ایجنڈے میں مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آباد کاری طویل عرصے سے شامل رہا ہے لیکن رواں برس مئی میں پارٹی کی دوبارہ کامیابی کے بعد اس معاملے کو اٹھایا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتہاپسند بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے رہنما مودی کا یہ پرانا نظریہ ہے جسے انہوں نے عملی جامہ پہنایا ہے۔ اس کا ایک بڑا مقصدمقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے وہاں بڑی تعداد میں ہندوئوں کی آباد کاری ہے اور اس کیلئے وہ اسرائیل کی مثال کو سامنے رکھتے ہیں۔ اب انہوں نے اس عزم کا اظہار کھلم کھلا کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل سندیپ چکرورتی ایک تقریب میں کہتے نظر آرہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت کو اسرائیل کی طرز کا منصوبہ بناتے ہوئے وہاں زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کو آباد کرنا ہوگا۔ بھارتی قونصل جنرل کے مطابق جب مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی یہ کرسکتے ہیں تو ہم مقبوضہ کشمیر میں ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ امریکا میں بھارتی سفارت کار کو مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر ہندوؤں کی آبادکاری کی تجویز دینا مہنگا پڑگیا، بھارت سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا بھی اپنے ردعمل میں کہنا تھا کہ یہ بیان بھارت حکومت کی فسطائی سوچ اور ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نظریات ظاہر کرتا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو اور لاک ڈاؤن کو 100 روز سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں لیکن کشمیریوں پر اس بد ترین ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر طاقتور ممالک صرف اور صرف اپنے تجارتی اور مالی مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اس عزم کا اظہار کہ وہ کشمیریوں کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔