نومبر علامہ اقبال اور احمد ندیم قاسمی کی ولادت اور فیض کی ولادت فروری میں ہوئی چند سال قبل فروری ہی میں فیض امن میلے کا انعقاد ہوتا رہا مگر 2015ء سے یوم وفات کے موقع پر فیض فیسٹیول کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ Fastival کے معنی جشن کے ہیں۔ یعنی تہوار اور گانے بجانے کی محفل۔ چار برسوں سے فیض احمد فیض کی برسی کے موقع پر تین روزہ جشن منایا جاتا ہے۔ اس جشن کوکمرشلائز (تجارتی بنیادوں پر ) کر دیا گیا ہے۔ 19 نومبر کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں نصرت جاوید نے بھی اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے لکھا وہ فیض احمد فیض Event Manegment کے اس دور میں انقلاب یا تبدیلی وغیرہ کی علامت نہیں رہا، ایک پروڈکٹ (Product) برانڈ یا فیشن بن چکا ہے جسے مارکیٹ کیا جاتا ہے۔ فیض صاحب کے نواسے عدیل ہاشمی کو مارکیٹ کرنے کا ڈوھنگ بہت خوب آتا ہے۔ خدا اس کی عمر دراز کرے‘‘ اس سال فیض فیسٹیول میں ایک اور کام بھی ہوا جسے زبان بندی کہا جاسکتا ہے ۔ فیض نے کہا ’’ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘‘ اور یہ کہ
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
اس فیسٹیول میں فیض کی شاعری کا تضادیوں سامنے آیا کہ ایک مقرر ڈاکٹر عمار علی جان کو خطاب سے رک دیا گیا یعنی اس کی زبان بندی کی گئی۔
عمار علی جان ، معروف شاعر اور دانشور ڈاکٹر خالد جاوید جان کا صاحبزادہ ہے اس نے کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور شکاگو یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ان دنوں ایف سی کالج یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ 17نومبر کے ایک سیشن میں اس کو خطاب کی دعوت دی گئی موضوع تھا ’’ سحر کا روشن افق‘‘ دعوت ناموں اور فلیکس وغیرہ میں ڈاکٹر عمار علی جان کا نام بھی لکھا گیا تھا۔ فیسٹیول کے منتظمین نے تقریب سے تین گھنٹے قبل ڈاکٹر عمار جان کو فون کیا کہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے آپ خطاب نہیں کر سکیں گے میں سمجھتا ہوں کہ آر گنائزر کی ہی کمزوری ہے کہ وہ اپنے مہمان مقرر کا دفاع نہ کرسکے، یہ فیض کے اشعار کی بھی توہین ہے کہ عمار علی کی زبان بندی پر فیض کی فیملی خاموش تماشائی بنی رہی۔سوشل میڈیا پر وائس آف امریکا کا ڈاکٹر عمار جان سے لیا گیا انٹرویو میں نے سنا۔ اس کا کہنا تھا ’’ میں نے انسانی حقوق اور آئین کی بات کرنی تھی۔ میں تشدد کا قائل نہی نہ انتشار پھیلانا چاہتا ہوں نہ میرے ہاتھ میں بندوق ہے میں برطانیہ اور امریکا سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہوں اور ان دنوں ایف سی کالج یونیورسٹی میں لیکچرار ہوں۔ تنگ نظری کا مظاہرہ کیوں کیا گیا۔ سمجھنے سے قاصر ہوں میں ہال میں موجود تھا سٹیج پر میری کرسی خالی رکھی گئی‘‘
فروری1983ء میں فیض کی 72 ویں سالگرہ کے موقع پر فیض احمد فیض کا انٹرویو شائع ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’ جو آپ سے متفق نہیں ہے اس کو آپ غیر محب وطن کہہ دیتے ہیں یہ تصور ہمارے ملک کے اور کہیں رائج نہیں ہے۔ انگلستان میں بہت سے مخالف گروپ ہیں لیکن وہ آفس میں ایک دوسرے کو غیر محب وطن نہیں کہتے۔ ممتاز شاعر، ادیب، مصور اور خطاط اسلم کمال کا فیض صاحب سے قلبی تعلق رہا ہے ۔ فیض صاحب کی خواہش پر انہوں نے 1983ء میں ’’ نسخہ ہائے وفا‘‘ کو مصور کیا ۔ اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ فیض فیسٹیول میں اسلم کمال کو مدعو نہیں کیا جاتا جبکہ اسلم کمال دنیا میں واحد مصور ہیں، جنہوں نے کلام فیض کی مصوری کی اور سال فیض صاحب کاصد سالہ جشن ولادت سرکاری سطح پر منایا گیا۔ لاہور عجائب گھر نے سال فیض کے سلسلے میں اسلم کمال کی مصوری بسلسلہ کلام فیض نمائش کی جو ایک ماہ جاری رہی اس نمائش کا افتتاح فیض صاحب کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی نے کیا تھا 19نومبر ہی کے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے اپنے کالم میں لکھا’’ پیلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغرا صدف نے پنجابی زبان وادب کے حوال س ایک تقریب فیض میلہ میں کر دی، جبکہ پنجابی میں فیض نے نہیں لکھا تھا۔ چند چیزیں انہو ں نے لکھی ہو نگی ۔ میری گزارش صغرا صدف سے ہے کہ وہ پیلاک (پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ انیڈ کلچر) میں ایک بنے بنائے ماحول کو مزید نکھارنے کی کوشش کر لے اس طرح کے پہلے سے استوار کئے گئے ماحول میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش نہ کر لے مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ فیض احمد فیض کے صد سالہ جشن ولادت ( فروری 2011ئ) کے موقع پر میری کتاب فیض اور پنجابی جمہوری پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ میں نے پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے فیض کو متعارف کرایا فخرزمان نے لکھا فیض صاحب کی اردو اور پنجابی زبان کی شاعری اور افکار پر مشتمل تنویر ظہور کی یہ کتاب اپنی طرز کی پہلی کاوش ہے۔ کتاب کے ناشر معروف دانشور اور تجزیہ کار فرخ سہیل گوئندی نے لکھا فیض احمد فیض کی شاعری ان کی فکر اور نظریے کا اظہار تھی جو کہ انہوں نے اردو زبان میں کی لیکن تنویر ظہور جو کہ فیض احمد فیض کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ فیض کی پنجابی زبان کے ساتھ وابستگی کو تلاش کر کے ایک شاندار ادبی کارنامہ سر انجام دیا ہے جو پہلی مرتبہ کتابی صورت میں شائع ہوا ہے اس کتاب میں فیض کے پنجابی کلام کے علاوہ فیض کا پنجابی کنونشن سے خطاب اور " گلاں میاں محمددیاں" کے موضوع پر منعقدہ تقریب میں فیض صاحب کا صدارتی خطاب بھی شائع کیا گیا یہ دونوں تقاریب راقم نے کرائی تھیں میرے اس کام سے ڈاکٹر صغرا صدف بخوبی واقف ہیں۔ فیض فیسٹیول کے منتطمین تو دور ڈاکٹر صغرا صدف نے اپنے پنجابی سیشن میں بھی راقم کو مدعو نہیں کیا۔جو کچھ ہوا میں اسے فیض احمد فیض کے مذکورہ بالا نظریات کی نفی اور توہین قرار دیتا ہوں۔ موجودہ حکومت جمہوریت اور انسانی حقوق کی باز یابی کے لئے برسر اقتدار آئی ہے حکومت کو ان تمام واقعات کا نوٹس لینا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38