ابھی کچھ قرض باقی ہیں

ہم خود پہ اس مٹی کے قرض کو اس دھرتی کی تقدیر بدل کر اتاریں گے، ہم انشاءاللہ ایسی تدبیرکرینگے کہ سارا زمانہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سربلندی پہ فخرکرے گا، نظریہ پاکستان کی آبیاری اور تحفظ کےلئے کےلئے سردھڑکی بازی لگارہے، ہم سب ایک دوسرے کے نظریاتی ساتھی ہونے کاثبوت بھی مختلف مواقع پہ دیتے رہتے ہیں، ہماری صحافت کے دالان میں اخبارات اور جرائد ہماری صحافی اور ادباءکی برادری کسی بھی مشکل میں قائداعظم محمدعلی جناح کے اتحاد، ایمان اور تنظیم کو اپنے عمل اور نظریہ کے ساتھ مالا کی طرح پروئے رکھتی ہے، یہ عظیم الشان سلطنت کسی ایک شخص کی محنت شاقہ کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ کروڑہا عوام کی عزم وہمت جرات کانتیجہ ہے، اگست 1947 کی یادیں جہاں گلاب کے عطر کی طرح مہکتی ہیں وہاں پہ لہوکی لہریںبھی اپنی مدحت پھیلاتی ہیں، بلند وبالا عمارات پہ لہرانے والا سبز پرچم صرف سنہری تاروں سے ہی نہیں بُناجاتا بلکہ اس میں لپٹے ہوئے مٹی کی محبت میں قربان ہونے والے ماﺅں کے لخت جگر لپٹ کر قبروںمیں اتارے جاتے ہیں، نظریاتی سرحدوں کی قربانیاں اور مٹی کی سرحدوں کی قربانیاں مل کر ہی اتناعظیم الشان وطن تسخیرکرتی ہیں۔ ہم جوہرسال دشمنان پاکستان واسلام کی ہرگھناﺅنی چال وسازش کا اسی طرح منہ توڑجواب دیتے ہیں جس طرح سے آزادی کے بعد دیتے آرہے ہیں، دہشت گردی کا گھناﺅنا کھیل اورجو خوف وہراس ہمارے ملک اور قوم میں پیدا کرنا چاہ رہاہے وہ اس طرح کامیاب اس لئے نہیں ہورہاکہ ہماری افواج پاکستان ہمارے چھوٹی عمروں کے نوجوان ہمارے سپہ سالار سرحدوں پہ بارودی سرنگوں کی طرح تیارکھڑے ہیں، ہزاروں اونچی چوٹیاں ہوں تو وہاں کی پوسٹ پہ بھی ہم سینہ تانے کھڑے ہیں اور گہری کھائیوںمیںموت کے سامنے اپنا ایمان لئے کھڑے ہیں، ہمارا تجدید عہد ہم پہ مارے جانے والے شب وخون کے لمحات میں ہماری قربانیوں سے بار بار لکھاجاتاہے، ہمارے دشمن جتنے بھی جابر ہوں ہم ان کے آگے کلمہ حق بلندکرنے سے کبھی دریغ نہیں کرتے۔ کشمیر کے مسلمان ہوںیا یمن کے ، لیبیا اور شام کے یامصر کے یا آج کے غزہ میں جو ظلم اور بربریت ہو تو وہاںکے مسلمانوں نے بھی سرنگوں نہیںکیا، قربانیاں اتنی ادا کردی ہیں کہ مورخ تاریخ میں شاید لکھ نہ سکے۔ اے یہودیو! تم جس بھی قوم کو للکاروگے اگر وہاںمسلمان ہوا تو تم ناکام ہی لوٹ جاﺅگے۔
1947کے قتل وغارت گری کی داستان بہت لمبی ہے، کم ازکم دس لاکھ مسلمانوںکوصفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد 30 لاکھ تک ہے،1941ءکی مردم شماری کے مطابق پٹیالہ، کپورتھلہ، فریدکوٹ، جنڈ اورنابھی کی ریاستوں میں 8 لاکھ 33ہزار مسلمان آباد تھے۔ ان میں سے اکثرکو اگست ستمبر1947ءکونیست ونابود کردیاگیا۔ صرف پٹیالہ سے ڈھائی لاکھ مسلمان غائب ہوگئے، جن کا کوئی نام ونشان نہیں ۔ کپورتھلہ میں شاید ہی کوئی مسلمان زندہ بچاہو۔15ستمبر 1947ءکے روز مسلمان مہاجرین کا ایک قافلہ اردیسہ سے روانہ ہوا، اتنی بڑی تعداد کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ لہٰذا پہلے انہیں بھالوں،کرپانوں اور بندوقوں سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ظالم بچوں کوبہ نوک کرپان قتل کرتے، پاﺅںتلے روندتے، اچھال کر بلم کی نوک پر دبوچتے اورکہتے یہ ہے تمہارا پاکستان۔ ہزاروں مسلمان مارے گئے لیکن پھر بھی ہزاروں زندہ بچ گئے چنانچہ ہندو سکھ فوجوں کے ٹرک بھیجے گئے جو فوج کی انداز میں منظم طریقوں سے ڈیڑھ گھنٹے تک مسلمانوںکا قتل عام کرتے رہے۔ ایک لاکھ کے قافلے میں سے صرف چارہزار زندہ بچ کر پاکستان پہنچ سکے۔96ہزار مسلمان قتل کردیئے گئے۔پروفیسر مشکورحسین یاد اپنے پورے خاندان کی بالخصوص اپنی ڈیڑھ سالہ معصوم بچی کی شہادت اور آزادی کی قیمت چکانے کی دلخراش، دل سوز واشک آور داستان یوںبیان کرتے ہیں۔
ہمارا پانی ختم ہوچکاتھا، گولیوںکی لگاتار بارش ہورہی تھی، پولیس کی مدد سے بلوائی ہمارے گھرکی چھتوںکو کھود کرآگ لگارہے تھے، ظہیر اورنفیس بانوخون میں نہاچکے تھے، میں ظہیرکی لاش کے قریب آیا اور دروازے سے باہر دیکھاکہ بلوائی (ہندوسکھ) نیزے برچھیاںلئے ہمارے گھر سے نکلنے والوں پر حملہ کررہے ہیں۔میں اپنی دانست میں عقل مندی سے کام لیتے ہوئے ظہیرکی لاش کے قریب لیٹ گیا۔ البتہ مجھے اس وقت ایک دھماکہ ضرور سنائی دیا۔ بعد میں پتہ چلاکہ مجھ پر فائرکیاگیاتھامیں اس سے زخمی بھی ہوا، لیکن اس وقت مجھے گولی کے زخم کا ذرا سا بھی احساس نہ ہوا اورمیں یہ سمجھاکہ ہوشیاری سے اپنی جان بچا رہا ہوں۔ میں زمین پر ظہیر اورنفیس بانوکی خون میں ڈوباہواتھا اور سب کچھ دیکھ رہاتھا۔چھت پر چڑھے بلوائی ہم پر اینٹ ،پتھروں اورکانچ کی ٹوٹی ہوئی بوتلیں برسا رہے تھے، اتنے میںمجھے محسوس ہوا کہ کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی چیز (پٹرول) ہم پر پھینکی جارہی ہے، چند لمحوں بعد ہمارے جسموں میں آگے لگ گئی، خدیجہ نے مجھ سے باہرجانے کی اجازت مانگی۔ اس وقت مسرور بانو، خدیجہ کی گود میں تھی۔ ہندواپنے گھروںسے اینٹ اور پتھر برسارہے تھے، خدیجہ مسرور کو اپنے ایک ہاتھ سے بچانے کی کوشش میں مصروف چلی جارہی تھی، میں نے دیکھاکہ ہندو برچھیوں سے ہمارے گھرسے باہر نکلنے والوں کو مار رہے ہیں۔ جب ہندوﺅں نے خدیجہ پر حملہ کیا تو معصوم بچی کو بچانے کی غرض سے میری والدہ نے مسرورکواپنی گودمیں لے لیا اورجب امی پر حملہ ہوا تو مسرور اپنی ماںکی گود میں آگئی۔دونوں نے بچی کو بچانے کی کوشش میں اپنا خاتمہ کرلیا، رات کے اندھیرے میں جب حملہ آور جاچکے اور آگ بھی قریب قریب بجھ چکی تھی میں نے مسرورکی آواز سنی۔مسرور نے پہلے اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں دادی کو پکارا اور جب دادی کی لاش نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ اپنی ماں سے مخاطب ہوئی، وہ بھی اپنی ماںکو بلارہی تھی اور میں اس کے قریب جانے کا موقع بھانپ ہی رہاتھا کہ ایک ہندو سپاہی آگے بڑھا اورکہاارے ابھی تو زندہ ہے!

ای پیپر دی نیشن