منگل، 3 محرم الحرام، 1444ھ، 2اگست 2022 ء

جس دلدل میں ہمیں پھنسایا گیا اس سے نکلنا آسان نہیں۔ فضل الرحمن
بات تو مولانا نے ایک سو ایک فیصد درست کی ہے مگر انہیں اس دلدل تک جو لائے ہیں بہلا پھسلا کر ہی لائے ہوں گے۔ ورنہ اتنی سی بات تو عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر کنویں میں چھلانگ لگانا موت کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ پھر مولانا صاحب ، شہباز شریف ، آصف زرداری جیسے جہاندیدہ سیاسی رہنما کس طرح جھانسے میں آ گئے اور اس دلدل میں پھنس گئے۔ اب یہ بھی طے ہے کہ دلدل میں پھنسنے والا جتنے ہاتھ پائوں مارتا ہے اتنا ہی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے تو اب حکمران اتحاد سابق حکومت کی چھوڑی ہوئی باقیات کا بوجھ اٹھائے پھر رہاہے اور :
پھرتے ہیں میرؔ خوار، کوئی پوچھتا نہیں
روپے کی بے قدری، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، بجلی ، پٹرول، گیس اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی جو سوغات سابقہ حکومت نے عوام کو دی تھی اب موجودہ حکومت سے سنبھالنے نہیں سنبھلتی۔ مگر یہ راہ خود پی ڈی ایم نے چنی ہے تو پھر رونا دھونا کیسا۔یا تو اس پُرخطر راہ پر آتے نہیںاب آئے ہیں تو مشکلات کا سامنا کریں اور خود کو ہیروز کی طرح کامیاب بنائیں عوام کو ریلیف دیں خواہ کچھ بھی کرنا پڑے ورنہ آنے والے الیکشن میں یہ سب زیرو ہو جائیں گے اور اس گیم کے خالق اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر فتح کا جشن منائیں گے۔ جبکہ پی ڈی ایم کو رونے کے واسطے سر رکھنے کے لیے کوئی کاندھا بھی میسر نہ ہو گا۔
٭٭٭٭
پاکستان سٹیل سے 10 ارب روپے کا میٹریل چوری ہونے کا انکشاف
اب سمجھ نہیں آتی یہ سٹیل مل تھی یا کوئی چھوٹی سی کریانہ کی دکان جس پر چوروں نے یلغار کر کے سودا سلف چھین لیا۔ یہ ایشیا کی بڑی سٹیل ملوں میں شمار ہونے والی سٹیل مل تھی جس کا اپنوں کی مہربانیوں سے یہ حال ہو گیا کہ چور اچکے وہاں سے 10 ارب روپے کا میٹریل چرا کر لے گئے ہیں۔ اتنا کچھ لٹ گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ چور اور چوکیدار ملے ہوئے تھے۔ ورنہ جب مال چرایا جا رہا تھا تو کسی نے پراسرار طریقے سے مال بردار گاڑیوں کی سٹیل ملز میں آمدورفت کا نوٹس تک کیوں نہ لیا۔ اب ایف آئی اے کو خط لکھا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔ اب کہیں تحقیقات سے یہ پتہ نہ چلے کہ یہ سارا مال چوہے کھا گئے ہیں یا اپنے بلوں میں لے گئے ہیں۔ کیا معلوم وہ اپنی آبادیوں میں کوئی سٹیل مل لگا رہے ہوں۔ ہم سے تو مل سنبھلی نہیں شاید یہ چوہے کام چلا لیں۔ جب خود اعلیٰ افسران اس واردات میں شامل ہوں گے تو وہ بھلا تحقیقات کیوں کرنے دیں گے۔ ان میں سے نجانے کتنے ریٹائر ہو چکے ہوں گے کتنے مر کھپ چکے ہوں۔ کئی پرکشش عہدوں پر موجود بھی ہوں گے۔ اب جو زندہ ہیںیا مردہ یا ریٹائر ان سب کو جو اس لوٹ مار میں شامل رہے ہیں، خواہ حکومتی عہدیدار ہوں یا کسی سیاسی تنظیم کے موالی۔ الٹا ٹانگ کر ان سے یہ رقم نکلوائی جائے یا پھر ان کے تمام منقولہ و غیر منقولہ اثاثے جو انہوں نے اپنے بیوی بچوں یا رشتہ داروں کے نام پر بنائے ہیں ضبط کرکے جتنی وصولی ممکن ہو، کی جائے ۔ یہ قومی خزانے کا پیسہ ہے اسے یوں ہڑپ کرنے والوں کو عبرت کی مثال بنایا جانا ضروری ہے۔
٭٭٭٭
حب ڈیم مکمل محفوظ ہے۔ کمزور ہونے کی خبروں میں صداقت نہیں۔ واپڈا
کیا وقت آن پڑا ہے واپڈا والوں پر۔ ایک وقت تھا بجلی کا ہر معاملہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اچھی یا بری ہر خبر پر لوگ واپڈا کی تعریف کرتے یا اس کے لتے لیتے تھے۔ پھر بجلی کے تقسیم کار۔ بل وصول کرنے والے۔ بجلی فراہم کرنے والے نجانے کون سے ٹکڑے واپڈا سے ٹوٹ ٹوٹ کر الگ ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ نئی نئی کمپنیاں بجلی کی ترسیل میں بہتری لاتیں۔ بجلی چوری ختم کرتیں۔ ان سے ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ بہرحال حب ڈیم کے بھرنے اور اس کے مضبوط ہونے کی گواہی واپڈا دے رہا ہے کیونکہ اب شاید واپڈا کے ذمہ صرف ڈیموں کی دیکھ بھال کا کام رہ گیا ہے۔ جہاں سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ مگر حب ڈیم کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے بنایا گیا ہے جو کچھ عرصہ سے آبی قلت کے باعث خاصہ متاثر ہو رہا تھا۔ اب شدید بارش اور سیلاب سے وہ ڈیم لبالب بھر گیا ہے ۔ جس میں آئندہ دو سال کے لیے کراچی کو پانی کی فراہمی کا مکمل انتظام ہو گیا ہے۔ مگر کیا کراچی والوں کو اس ڈیم کے بھرنے سے کچھ فائدہ ہو گا بھی یا نہیں۔ کیونکہ وہاں موجود ٹینکر مافیا کبھی کراچی میں پانی کی سپلائی بہتر ہونے نہیں دیگا خواہ حب ڈیم جیسے دو اور ڈیم بھی لبالب بھر کیوں نہ جائیں۔ جب تک کراچی جیسے بڑے شہر کو ٹینکر مافیا سے، غیر قانونی بنائے گئے ہائیڈرنس چلانے والوں سے نجات نہیں ملتی سارا سال بھی بارش برسے وہاں پانی کی قلت دور نہیں ہو گی۔ یہ بھتہ خور مافیاز کسی قیمت پر اپنی ماہانہ کروڑوں کی آمدن سے ہاتھ دھونے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔ سندھ گورنمنٹ اور کراچی کی انتظامیہ جو ان کی شریک کار ہے اس بات سے بخوبی آگاہ ہے۔
٭٭٭٭٭
جھاڑ کھنڈ مخلوط حکومت گرانے کی کوشش ناکام۔ 3 ارکان کانگریس نوٹوں سے بھری بوریوں سمیت گرفتار
ہندوستان میں بھی نوٹوں سے بھرے بیگ اور سوٹ کیس لے کر اپوزیشن کو توڑنے یا حکومت کو گرانے کی کہانیاں سامنے آنے لگی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آس پڑوس کا اثر بالآخر پڑ ہی جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہزار عیب ہوں گے مگر ان کے سیاستدان وطن پرست ہیں۔ کاش ان کااثر ہمارے سیاستدانوں پر بھی پڑے وہ بھی اپنے وطن کی خدمت میں جت جائیں تو ہمارے ہاں بھی تیز نہ سہی آہستہ آہستہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ عمران خان کئی مرتبہ اس بارے میں کہہ بھی چکے ہیں۔ اب ہندوستان کی ریاست جھاڑ کھنڈ میں مخلوط حکومت کو گرانے کے لیے وہاں کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے تین ارکان سے بوریوں میں بھری رقم برآمد ہوئی ہے جس پر کانگریس نے بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ وہ جھاڑ کھنڈ میں ارکان اسمبلی کو خریدنے کے لیے کروڑوں روپے کی پیشکش دے رہی ہے۔ نوٹوں کے یہ انبار گننے کے لیے اب ریاستی سرکار نے مشینیں منگوائی ہیں۔ اس طرح مخلوط حکومت کو گرانے کی کوشش ناکام تو ہو گئی مگر اب یہ سلسلہ جو چل نکلا ہے اس کا خاتمہ کہاں ہو گا، وہاں اب ایسے تماشے ہر ریاست میں دیکھنے کو ملیں گے کیونکہ بی جے پی پورے ہندوستان میں اپنے سوا سب کے چراغ بجھانے کی پالیسی پر گامزن ہے اور مذہبی جنونی و سرمایہ کار اس کام میں بی جے پی کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ اب خدا جانے یہ ہندوستان کے لیے بہتر ہے یا اسکے مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی شروعات۔