یہ معاملے ہیں نازک
پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اپنی کتاب ’’تاریخ تصوف ‘‘ میں ہر مذہب میں تصوف کے وجود کا ذکر کیا ہے ۔ انہوں نے عیسائی، یہودی ، ہندو ، بدھ اور زرتشت تصوف کے عنوان سے باقاعدہ باب تحریر کئے ہیں۔ معروف ادیب حفیظ خاں صوفی ازم کو مذاہب سے قدیم تر قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاندارکتاب ’’پٹھانے خاں‘‘ میں لکھا۔ ’’اس حقیقت پر کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ صوفیوں کی ابتداء یا پہلی بار کسی معاشرے میں منظر عام پر آنا اسلام سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ صوفیوں کا ادارہ مذاہب کی قدیم ترین صورتوں میں بھی اپنے مزاحمتی رویے کے سبب کہیں نہ کہیں اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے ۔ رد امارت اور حکمرانی کے غاصبانہ چلن کے خلاف اس ادارے کی مزاحمت ہمیشہ سے محکوم رعایا کی جدو جہد سے عبارت رہی ہے ۔ یہی وہ لوگ تھے جو تلخی ایام میں ٹھکرائے ہوئے لوگوں کیلئے ڈھارس بن کر سامنے آتے رہے اور حزیمت زدہ لوکائی کی مقدور بھر دلجوئی اور تقویت کا باعث بنتے رہے‘‘ ۔آلو مہار شریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ سید فیض الحسن، اللہ ان پر رحمت فرمائے ۔کالم نگار کے والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور کے دوست تھے ۔ کالم نگار کا خاندان اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس طرح دونوں بزرگوں میں دوستانہ دل لگی ، گپ شپ اور بحث مباحثہ رہتا۔ صاحبزادہ سیدفیض الحسن کہا کرتے تھے۔ آپ ہمیں مذہبی پیشوا کی بجائے ایک نفسیاتی معالج ہی سمجھ لیں ۔ ہم خلق خدا کے دکھ درد سنتے ہیں۔ ان کی دلجوئی کرتے ہیں ۔ان کا دکھ بانٹتے ہیں۔ صاحبزادہ سید فیض الحسن حال ہی میں ضمنی انتخاب میں منتخب ہونے والی ن لیگی رکن قومی اسمبلی نوشین افتخار کے داداتھے۔ علامہ اقبالؒ نے البتہ فقر و سلطنت دونوں کو انسانوں کو اسیر کرنے کے ایک طریقے کے طور پر بھی لکھا ہے۔
؎نہیں فقر و سلطنت میں کچھ امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی وہ نگہ کی تیغ بازی
البتہ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ فقر و سلطنت میں جبرو رضا کا سا فاصلہ ہے ۔ کہیں کہیں یہ رضا عقیدت سے بڑھ کر عشق کی منازل طے کر جاتی ہے ۔ خواجہ نظام الدین اولیاء کے وصال پر ان کے چہیتے مرید حضرت امیر خسرو نے کہا تھا۔
گوری سوئے سیج پرمکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ پئی چوندیس
موت فطرت کا ایک راز ہے ۔ اس میں پراسراریت بھی بہت ہے ۔ یہ زندگی کو ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا :
ہے موت میں ضرور اک راز دلنشیں
مرنے کے بعد کچھ نہیں،ارے یہ تو کچھ نہیں
صوفیا موت کو اللہ سے ملاقات کا اک ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ اسی لئے صوفی موت کو وصال سمجھتے ہیں۔ ان کے مریدین بھی ان کی موت کو فنا کی بجائے پردہ کرنا قرار دیتے ہیں۔ یہی تخیل ان کے مزاروں کو زندہ اور آباد رکھتا ہے ۔ انسانی تہذیب میں ریاست کے ارتقاء میں ایک مرحلہ جادو ٹونے کا بھی آیا۔ زراعت شروع ہونے کے ابتدائی دور میں جادو ٹونے کی رسومات نے جنم لیا۔ چونکہ
فصل کے بونے سے لے کر اس کے کاٹنے تک کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بارشوں کا ہونا ، نہ ہونا اور موسم جیسے دوسرے عوامل انسانی اختیار سے باہر تھے۔ انہیں جادو ٹونے سے قابو کرنے کی کوشش کی گئی ۔ سائنسی علوم کے بڑھنے سے ان جادو ٹونے پر اعتبار ختم ہوتا گیا۔ لیکن تصوف میں جادو ٹونے کی باز گشت اب بھی موجود ہے ۔ درویشوں ، صوفیوں ، فقیروں کے ساتھ محیر العقول واقعات منسوب کئے جاتے ہیں۔ پھر یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔لاکھوں نوری سالوں پر پھیلی کائنات انسان کو حیرت میں مبتلا رکھتی ہے ۔ پھر ہر روز نئے انکشافات حیرت کو دہشت میں بدلتے رہتے ہیں۔ ہر آدمی کی زندگی میں چند ایسے واقعات بھی ضرور آتے ہیں جن کی عقل کوئی توضیح پیش نہیں کر سکتی ۔ انسانی عقل کی اسی بے بسی سے ہمارا خانقاہی نظام تقویت پکڑتا ہے ۔ اس ’’نگاہ کی تیغ بازی ‘‘کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ علامہ اقبالؒ بھی فقط اتنا ہی کہہ سکے :
یہ معاملے ہیں نازک جو تیری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ مزاج خانقاہی
کالم نگار ایک ذاتی واقعے پر کالم تمام کرتا ہے ۔ کالم نگار 2003ء میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوا۔ انجیو گرافی کے بعد اسے بائی پاس آپریشن کا مشورہ دیا گیا۔ چند مزید ڈاکٹروں سے مشورے کے بعد کالم نگار بائپاس آپریشن کیلئے تیار ہو گیا۔ لاہور نیشنل ہسپتال روانہ ہوتے ہوئے فیصل آباد میں مقیم اک درویش سے دعا کی درخواست کی ۔اس راجپوت اللہ والے نے محکمہ فوڈ سے ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی برکت علی سے اپنی روحانی ارادت کے باعث فیصل آباد ہی میں سکونت اختیار کر لی ہے ۔ بائپاس آپریشن کا سن کرانہوں نے فون پر تھوڑی دیر خاموشی اختیار کی ۔ پھر کہنے لگے ۔’’ اللہ سے التجا کرلی ہے ۔ آپ شوق سے لاہور جائیں، آپ کا آپریشن نہیں ہوگا۔ کبھی نہیں ہوگا‘‘۔ لاہور نیشنل ہسپتال میں عالمی شہرت کے ہارٹ سرجن ڈاکٹر فیاض ہاشمی رپورٹ دیکھ کر بولے۔ ’’آپ کو آپریشن کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف ادویات پر انحصار رکھیں‘‘۔ انہیں نصف درجن سینئر ڈاکٹروں کی آپریشن کروانے کے بارے میں آراء کا بتایا تو بولے ۔’’ آپ سیدھے اپنے گھر جائیں‘‘۔2012ء میں دوبارہ تکلیف ہوئی ۔لاہور کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں فزیشن ڈاکٹر بلال ذکریا نے آپریشن تجویز کیا ۔لیکن سرجن ڈاکٹر عبدالوحید بضد تھے کہ آپ کو محض ایک آدھ سٹنٹ ہی کافی و شافی ہوگا۔آپریشن کروانے کی بالکل ضرورت نہیں۔کالم نگار پندرہ روز ہسپتال میں ان دونوں کے فیصلے کے انتظار میں پڑا رہا۔ آخر ڈاکٹر عبد الوحید کی ضد کے سامنے ڈاکٹر بلال ذکریا ہار گئے ۔ انہوں نے کالم نگار کی شریانوں میں ایک سٹنٹ ڈالا اور فارغ کر دیا۔اللہ اللہ خیر صلیٰ۔ یاد رہے سرجن ڈاکٹر عبدالوحید ان دنوں وزیر آباد کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ہیں اور انہیں ملک بھر میں سب سے زیادہ بائی پاس آپریشن کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔