پیر ‘ 22؍ذی الحج‘ 1442ھ‘ 2 اگست 2021ء
عید پر صفائی میں لاہور پہلے بہاولپور دوسرے اور سیالکوٹ تیسرے نمبر پر
وزیر اعلیٰ نے گزشتہ روز عیدالاضحی کے بعد صفائی کے بہترین انتظامات پر جہاں انتظامی اور سیاسی ٹیموں کو مبارکباد دی ہے۔ اس کے ساتھ شاندار انتظامات پر اول دوم اور سوم آنے والی لاہور بہاولپور اور سیالکوٹ کی صفائی کمپنیوں کو انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹس سے بھی نوازا۔ انہوں نے عید کے بعد جہاں پنجاب کی تعریف کی وہاں کراچی میں صفائی کی ابتر صورتحال پر بھی دکھ کا اظہار کیا۔ اس بار بھی پنجاب میں صفائی کی صورتحال باقی صوبوں کی نسبت بہتر رہی۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ نے خبردار کیا ہے کہ اب ایسا کام ہر روز دکھانا ہو گا۔ ورنہ خیر نہیں۔ لگتا ہے آہستہ آہستہ وزیر اعلیٰ پنجاب فارم میں آتے جا رہے ہیں۔ ویسے ہی جیسے میراتھن ریس میں آہستہ آہستہ دوڑنے والا آخری چکروں میں تیز ہونا شروع کرتا ہے اور مقابلے کی دوڑ میں آگے نکلتا ہے۔ اس کی وجہ سے پنجاب کی انتظامیہ کو بھی وخت پڑتا محسوس ہو رہا ہے۔ افسروں کی اکھاڑ پچھاڑ پہلے بھی تھی اب پولیس کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کی بھی خبر لی جا رہی ہے۔ ا گر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اسی طرح طوفانی دوروں پر نکلتے رہے تو جلد ہی ہر دوسرے دن بعد کسی نہ کسی شہر سے انتظامیہ میں اکھاڑ پچھاڑ اور افسروں کے تبادلے کی خبریں سننے کو مل سکتی ہے۔ عوام بھی ایسے وزیر اعلیٰ کو پسند کرتی ہے جو بھاگ دوڑ والا ہو چاہے شوباز ہی کیوں نہ ہو۔ کم از کم وقفے وقفے سے عوام کے درمیان آ کر ان کے سامنے آ کر ان کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہے۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے جو وزیر اعلیٰ لوگوں کی اس سائیکی کو جان لیتا ہے تو وہ صوبے کی انتظامیہ کو یونہی وختے میں ڈال کر عوام کا دل خوش کرتا ہے اور مقبول و تگڑا وزیر اعلیٰ کہلاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
عوام اور اپوزیشن نے پٹرول کی قیمت میں اضافہ مسترد کر دیا
یہ بڑا عجیب سا جملہ ہے، عوام نے یا اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کر دیا۔ بھلا جب حکومت نے اضافہ کر ہی دیا ہے تو وہ نافذ ہونے کے بعد کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ قیمت تو وہی دینا ہو گی جو حکومت نے مقرر کی ہے۔ اس پر یہ کہنا کہ عوام نے یا اپوزیشن جماعتوں نے پٹرول کی قیمت میں اضافہ مسترد کر دیا۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک بات ضرور ہے کہ اس اضافے کے بعد پٹرول کی قیمت نے زرداری حکومت کی یاد دلا دی ہے جسے لوگ برا خواب سمجھ کر بھول جا رہے تھے۔ اب وہ برا خواب ایک مرتبہ پھر سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے دور میں بھی پٹرول کی قیمت اسی درجہ کمال تک جا پہنچی تھی جس پر اب جی ہاں 119 روپے 80 پیسے ہے۔ جس طرح ہر 15 روز بعد پٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس سے تو خطرہ پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں موجودہ حکومت زرداری دور کا ریکارڈ ہی نہ توڑ دے۔ ویسے بھی سارے حکمرانوں کو ریکارڈ بنانے اور توڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ریکارڈ توڑ کامیابی ریکارڈ توڑ جیت اور نجانے کون کون سے ریکارڈ توڑے بنائے جاتے ہیں۔ یہ واحد کام ہے جس میں حکمرانوں کو مزہ آتا ہے۔ مگر افسوس انہیں عوام کا دل جوڑنے عوام کو خوش کرنے کا ریکارڈ بنانا نہیں آتا۔ جو بے چارے انہیں ریکارڈ توڑ ووٹ ڈالتے ہیں۔ مگر یہ ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کرنے والے بھی ان کی زندگیاں نہیں بدلتے البتہ اپنے لیے ریکارڈ توڑ فوائد ضرور حاصل کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ویکسینیشن کے جعلی سرٹیفکیٹ بن رہے ہیں۔ فیصل سبزواری
ایم کیو ایم کے رہنما کراچی میں جو کچھ ہوتا اس کے بارے میں بہت زیادہ باخبر ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اب حکومت کی طرف سے سفری پابندی کے اعلان اور سم بند کرنے کی تجویز نے تو جیسے کراچی والوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے رکھ دیا ہے اور وہ سب ویکسین لگوانے کے لیے ویکسینیشن سنٹرز پر یوں ٹوٹ پڑے ہیں گویا کرکٹ ورلڈ کپ کے ٹکٹ یا امریکہ جانے کے لیے فری ویزہ مل رہا ہو۔ چلیں یہ اچھی بات ہے۔ کاش یہ خیال کراچی والوں کو پہلے آیا ہوتا تو یہ افراتفری کا سماں پیدا نہ ہوتا۔ رہی ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کی یہ بات کہ ویکسینیشن کے جعلی سرٹیفکیٹ بن رہے ہیں سو فیصد درست ہے ۔ صرف کراچی میں ہی نہیں ملک کے کئی شہروں سے ایسی شکایات مل رہی ہیں کہ اپنی جان اور دوسروں کی صحت کے دشمن فراڈ سے چالاکی سے ایسا کر رہے ہیں۔ کئی لوگ ویکسینیشن سنٹرز سے پہلی ڈوز فارم فل کر کے انجکشن لگائے بغیر ہی بھاگ نکلتے ہیں۔ یوں اداروں کودھوکہ دیتے پھرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی خوراک لے لی ہے۔ اس کا سدباب کرنا ہو گا۔ جب تک انجکشن نہ لگے کسی کو سرٹیفکیٹ جاری نہ کیا جائے۔ کرونا کی چوتھی لہر نے ایک مرتبہ پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس لیے جو لوگ ان خطرناک حالات میں بھی دو نمبری کر رہے ہیں ان کی بھی ٹلیاں بجانا پڑیں گی۔ ورنہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ والا تماشہ جلد ہی لگنے کا خطرہ ہے۔ پہلے ہی کرونا کیسز کی تعداد ایک بار پھر بڑھ رہی ہے جو خطرے کی علامت ہے۔
٭٭٭٭٭
لکھنئو مت جانا یوگی ہے وہاں، بی جے پی کی کسانوں کو دھمکی
اب بھلا جو دلی جانے سے نہیں ڈرے، لال قلعے میں جاکر وہاں اپنا خالصتانی پرچم لہرایا۔ وہ سکھ پنجابی کسان اور دوسری ریاستوں کے کسان ادتیہ یوگی کو کسی کھاتے میں لانے والے نہیں۔ ادتیہ یوگی کے ڈھول کا پول کھولنے کیلئے حیدرآباد دکن کے اویسی برادران ہی کافی ہیں جو ہر جگہ ادتیہ یوگی کے جنونی ہندو ذہنیت کا پردہ چاک کرکے اس کے مکروہ چہرے اور کردار سے بھارتیوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ لکھنئو تو ویسے ہی رکھ رکھائو والے مسلم نوابوں کا شہر ہے وہاں آج بھی قدم قدم پر مسلمانوں کی تہذیبی روایات اور ثقافت کی چھاپ ہندو توا کا منہ چڑھاتی نظر آتی ہے۔ آج تک ادتیہ یوگی ان کو نہیں مٹا سکا تو یہ جاٹ اور سکھ بھلا اس سبزی خور کے قابو کیا آئیں گے۔ بھارتی حکومت فوج اور سیاستدان جانتے ہیں کہ اگر سکھ بگڑ گئے تو بھارتی فوج اور پولیس میں بغاوت پھوٹ سکتی ہے۔ اس لئے دہلی چلو لانگ مارچ میں بھی بھارتی حکمرانوں نے ہاتھ ہولا رکھا ہے۔ اب جب دوسری ریاستوں کے کروڑوں کسان بھی پنجابی کسانوں کے ہم آواز ہوکر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تو لکھنئو والے یوگی کی کیا مجال کہ وہ کسی کسان پر ہاتھ ڈالے یہاں مذہب کے نام پر اجارہ داری نہیں چلے نہ جنونیت اور تعصب کا بھوت ناچے گا۔ زمین کے ان داتائوں کا یہ نفرت کے پجاری مقابلہ نہیں کرسکتے…
٭٭٭٭٭
ہمارا کوئی دوست نہیں ہے‘ ہمیں نہ انگریز پر بھروسہ ہے‘ نہ ہندو بنیے پر‘ ہم دونوں کیخلاف جنگ کریں گے خواہ وہ آپس میں متحد کیوں نہ ہو جائیں۔
اجلاس عام پشاور … 2 نومبر 1945ء