طاقت کے ذریعے افغانستان میں امن ممکن ہے نہ اقتدار کی منتقلی
افغانستان میں بدامنی عروج پر ہے۔ ہرات شہر میں 5 مقامات پر گھمسان کا رن پڑا ہے۔ طالبان سے جھڑپوں میں افغان کمانڈر کرنل عبدالحمید ہلاک ہوگئے۔ امن کی تلاش کیلئے کابل میں بڑی بیٹھک ہوئی جس میں اہم افغان رہنمائوں نے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور مذاکرات کے ذریعہ قیام امن کا مطالبہ کیا۔ ترجمان افغان وزارت دفاع کے مطابق طالبان نے ہرات میں یو این دفتر پر گزشتہ روز دوبارہ حملہ کیا۔جانی نقصان کی اطلاع نہیں، افغان میڈیا کے مطابق طالبان ہرات کے جنوبی حصے میں داخل ہو گئے۔ افغانستان کے شمالی صوبہ جوزجان میں طالبان کے ٹھکانوں پر جنگی طیاروں کے حملوں میں 21 عسکریت پسندوں کے ہلاک، 10 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ فوج کے ترجمان محمد حنیف ریضائی نے بتایا مرغاب، حسن تابین، اتما اور جوزجان کو ہمسایہ صوبہ سرپل سے جوڑنے والی سڑکوں سے ملحقہ دیہات میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکہ افغانستان میں بدامنی کا الائو بھڑکتا ہوا چھوڑ کر جا رہا ہے۔ 29 فروری 2020ء کو امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والے امن معاہدے پر عمل کو امریکہ اپنی نگرانی میں یقینی بنا سکتا تھا۔ اس نے طالبان اور افغان انتظامیہ کے مابین مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے پر اکتفا کیا۔ افغان حکومت کی طرف سے پہلے مذاکرات پھر امن معاہدے کی شدید مخالفت کی گئی اور اسے سبوتاژ کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ طالبان کے خلاف آپریشن جاری رکھے۔ معاہدے کے تحت ایک روز بھی جنگ بندی پر عمل نہ کیا۔ طالبان نے معاہدے میں طے پانے والی شق کی روسے تمام قیدی رہا کر دیئے جبکہ اشرف غنی حکومت نے ابھی تک طالبان قیدی نہیں چھوڑے۔ امریکہ سنجیدگی سے کام لیتا تو ایک سیاسی سیٹ اپ تشکیل پا سکتا تھا۔ اس وقت طالبان تعاون پر تیار تھے۔ اب اپنی شرائط پر اس لئے معاملات طے کرانا چاہتے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے مقبوضات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان اب تک ایک بار پھر وہ تاریخ دہراتے ہوئے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کر سکتے تھے جس طرح روس کے انخلاء کے بعد قائم کی تھی مگر اب حالات مختلف ہیں۔ امریکہ نے اپنی فوجیں ضرور نکالی ہیں مگر وہ افغان حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔ اس نے افغان فضائیہ کو مضبوط بنایا ہے۔ افغان فوجیوں کی امریکہ کے ساتھ بھارت نے بھی تربیت کی ہے۔ روس افغانستان سے گیا تو افغان فوج طالبان کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکی وہ تتر بتر ہو گئی تھی بہت سے فوجی طالبان کے ساتھ مل گئے تھے۔ اب بھی افغان فوج اتنی جری اور بہادر نہیں ہے۔ کئی ’’سپوت‘‘ پڑوسی ممالک میں پناہ کے لیے بھاگ رہے ہیں مگر طالبان کے ساتھ ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ افغان فضائیہ کا خوف ہے۔ افغان فضائیہ ہی طالبان کی مکمل کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ افغانستان میں حکومت کی رٹ ہے نہ طالبان پورے ملک پر قابض ہیں۔ اشرف غی اور ساتھی اپنا اقتدار بچانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ طالبان ایک بار پھر انقلاب کے لیے سرگرداں ہیں۔ اس لڑائی میں شہری پس رہے ہیں۔
ہرات میں یو این دفتر پر حملہ دوسری بار کیا گیا، 2010 ء میں بھی ہوا تھا۔ اب جو حملہ ہوا اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی۔ اگر یہ حملہ طالبان نے نہیں کیا تو کس نے کیا ہے؟ وہاں داعش اور القاعدہ بھی بدستور سرگرم ہے اور پھر امریکہ کی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے ایسے ڈرامے اور سازشیں افغان حکومت بھی کراتی رہی ہے۔ طالبان اپنے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کی طرف سے کامیڈین خاشہ زوان کی ہلاکت کی ذمہ داری یہ کہہ کر قبول کر لی ہے کہ اس کا تعلق افغان پولیس سے تھا جو طالبان کے خلاف برسرپیکار تھا۔ اسے حراست میں لے کر جیل منتقل کیا جا رہا تھا کہ راستے میں مارا گیا۔
افغان انتظامیہ کے لیے ملک میں امن برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ طالبان بھی اپنے مقبوضات میں امن سے حکومت نہیں کر سکتے ان کے پاس ہوائی حملوں کا توڑ نہیں لہٰذا مذاکرات کے ذریعے ہی امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ملک آپ کا ہے ، شہری آپ کے ہیں ، ان پر رحم کھائیں۔ مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی راہ اختیار کریں عوام جس پر اعتماد کریں وہ ان کی رہنمائی کرے۔ افغانوں نے بڑی خونریزی دیکھی ہے۔ ان پر بڑی بڑی طاقتوں نے حملے کئے اور سنگلاخ پہاڑوں سے سرٹکرا کر نامراد لوٹے۔ اب اپنے ہی ان پر ستم ڈھائیں تو وہ کس سے داد فریاد کریں۔ اشرف غنی انتظامیہ اور طالبان اقتدار کی جنگ میں کیا آخری افغان کو بھی مارنے کے درپے ہیں توپھر حکومت کس پر کریںگے۔ مذاکرات کی طرف آئیں اسی سے امن کی سبیل نکلے گی۔ زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ حکومت کی طرف سے ہونا چاہیے۔