انتخابی اصلاحات کے راستے میں رکاوٹ درحقیقت ملک و قوم سے زیادتی ہے۔ انتخابی عمل کا حصہ بننے والی تمام بڑی جماعتیں اس اہم ترین مسئلے کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہی ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف انتخابی اصلاحات میں سنجیدہ ضرور ہے لیکن پی ٹی آئی اپوزیشن کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتی ہے ان حالات میں اس قسم کی کسی بھی قانون سازی یا آئینی ترمیم ممکن نہیں ہے۔ حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ تعلقات نہایت خراب ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ نیب کیسز ہیں لیکن کیا صرف نیب کیسز کو بنیاد بنا کر ملکی تاریخ کی اہم ترین قانون سازی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟؟چونکہ کام حکومت نے کرنا ہے اس لیے مناسب ماحول تیار کرنا اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو قائل کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار کسی بھی طرح حکومت سے کم اہم نہیں ہوتا۔ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں جمہوریت کی گاڑی کے چلتے رہنے کے لیے ان دونوں کا بھی ایک ساتھ اور ایک ہی سمت میں چلنا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے یہاں یہ صورتحال نظر نہیں آتی، اپوزیشن کو گلے شکوے ہیں تو حکومتی وزراء کی بیان بازی بھی ماحول کو آلودہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ آج وزیراعظم عمران خان یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایک سال سے اپوزیشن انتخابی اصلاحات پر وقت نہیں دے رہی نہ اپنی تجویز دیتی ہے نہ حکومت کی سنتی ہے، الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے ہی دھاندلی روکی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا درست ہے کہ اپوزیشن انتخابی اصلاحات کے لیے وقت نہیں دے رہی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت وہ مناسب ماحول فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے کہ اپوزیشن یا تو خود تجاویز دے یا پھر حکومت کی تجاویز پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔قارئین کرام موجودہ حالات میں عام انتخابات یا پھر ضمنی انتخابات میں ہر جگہ دھاندلی کا شور ہوتا ہے حال ہی میں آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں ہارنے والے بھی دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ جیتنے والے بھی نتائج سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ ملک بھر میں جہاں کہیں بھی انتخابات ہوتے ہیں۔ یہی رونا دھونا سننے کو ملتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے رونا دھونا کرنے والے اس مرض کا علاج رکھتے ہیں، تشخیص ہو چکی ہے، مریض بھی جانتے ہیں کہ علاج کہاں سے اور کیا کرنا ہے لیکن کوئی بھی علاج کی طرف نہیں آنا چاہتا۔ دو ہزار تئیس کے عام انتخابات کو دیکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ نتائج پر عوامی اعتماد کے لیے اصلاحات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں ان دونوں کو انتخابی نتائج پر سب سے زیادہ اعتراضات ہوتے اس کے باوجود دونوں جماعتیں یہ مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آج کے جدید دور میں پیپر ورک سے نکل کر ٹیکنالوجی کی خدمات حاصل کر کے ہم اپنے انتخابات کو شفاف بھی بنا سکتے ہیں اور عوام کو بھی اس اذیت سے نجات دلا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر الیکشن کے بعد اگلی مدت تک دھاندلی کے الزامات و اعتراضات ہی ختم نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، نفرتیں بڑھتی ہیں، اندرونی دشمن ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبائی تعصب بھی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں یعنی مجموعی طور پر زندگی کے تمام شعبوں پر انتخابی نتائج پر ہونے والی بحث اور مہم اثر انداز ہوتی ہے۔ اتنے اہم معاملے کے باوجود ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کا غیر سنجیدہ رویہ سوالیہ نشان ہے، کیا سیاست دان صرف عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ہیں، مسائل کی نشاندہی اور مسائل کے حل کی طرف بڑھنا کسی کی ذمہ داری ہے، یہاں تو مسئلے کی نشاندہی ہو چکی ہے پھر بھی کوئی حل کی طرف بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم آج بھی ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کر کے ملک و قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ یہ ساری مشق صرف اور صرف ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہے۔ شفاف انتخابات ملک و قوم کے مفاد میں تو ہیں لیکن شاید دہائیوں سے حکمرانی کرنے والے سیاسی مافیا کو شفاف انتخابات کی عادت نہیں ہے وہ دھاندلیوں سے الیکشن میں کامیاب ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن ملک پر رحم کرے، اس ملک کے غریب عوام پر ترس کھائے، دھاندلی کے دائمی مرض سے چھٹکارے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ انتخابی اصلاحات میں رکاوٹ سیاسی مخالفت نہیں بلکہ ملک کی مخالفت ہے۔ دنیا میں جدید انتخابی نظام موجود ہیں ہمیں ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے اور شکست کے خوف سے نکل کر ایک یا دو الیکشن کے بجائے وسیع تر ملکی مفاد میں ملک و قوم کے بہتر مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی اصلاحات کی طرف بڑھنا چاہیے۔ نیب کیسز یا دیگر سیاسی اختلافات کو اصلاحات سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ اگر آج کوئی پاکستان تحریکِ انصاف کا ساتھ نہیں دے گا کل کوئی دوسری جماعت کسی اور حکمراں جماعت کا ساتھ نہیں دے گی یہی سلسلہ چلتا رہے گا تو نقصان صرف غریب عوام کا ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024