ہر سال موسم کے’’ تبدیل‘‘ ہونے کا اللہ کی طرف سے وقت مقرر ہے ۔وہ وقت آتا ہے اور اپنے’’ اثرات چھوڑ ‘‘جاتا ہے ،کچھ لٹ جاتے ہیں ، کچھ کی چھونپڑیا ں پانی کی’’ نذر‘‘ ہو جاتی ہیں ،کسی کا خاندان ہمیشہ کیلئے بچھڑ جاتا ہے اور وہ ذہنی مریض بن کر زندگی گزارتا ہے لیکن حکومت چند دن’’ کف افسوس‘‘ مل کر پھر بیٹھ جاتی ہے ۔اگلے سال پھر وہ منظر ہوتا ہے اور حکومتی وزراء کی آنیاں اور جانیاں اسی طرح لگی رہتی ہیں ۔ بدقسمتی سے کوئی بھی حکومت سیلاب کی روک تھام کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں کرتی ۔جب سیلاب خدا خدا کر کے گزر جاتا ہے تواس وقت نا قابل تلافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ سیلاب کی زد میںآئی کوئی چیز نہیں بچتی۔خواہ زمین ہو مکان ہو۔جانور ہوں یا انسان ہوں۔سیلاب اپنے پیچھے ایسے’’ خوف ناک اور ہولناک‘‘ منظر چھوڑکر جاتا ہے کہ جسے سوچ کر اور دیکھ کر انسانی جسم کا رو رو کھڑا ہو جاتا ہے اگر کسی کا لخت جگریا بہن بھائی رشتہ دار اس سیلاب کی نظر ہو کر پانی میںبہہ گئے ہوںتو یہ حولناک صدمہ زندگی بھر نہیں بھولتا۔یہ ایک قیامت ہوتی ہے جو سب کچھ اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔کوئی بستی جب چاروں طرف سے پانی میں گھر جائے اور کوئی وہاں کسی کی مدد کو نہ پہنچ پائے تو یہ قیامت نہیں تو اور کیا ہے۔پانی میں’’ گھری بستی‘‘ کے لوگ کس کو پکار سکتے ہیں نہ کسی سے فریاد کر سکتے ہیں کون اس حالت میں انکی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔کون ان بے بس اورمجبور لوگوں کو کھانا پہنچا سکتا ہے کون ایسی حالت میں ان کو دوائی دارو کی خاطر ڈاکٹر کے پاس لے جا سکتا ہے تمام راستے اور تمام تمام رابطے ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ کئی جگہ پر لوگ بارشوںکے باعث بجلی کی تاروں میں کرنٹ آجانے کی وجہ سے ’’موت کی آغوش ‘‘میں چلے جاتے ہیں۔سیلاب ایک موت کا پیغام ہے ان لوگوں کیلئے جو ان علاقوں میں رہتے ہیں جو علاقے پانی میں گھر جاتے ہیں۔یہ بد قسمت لوگ کہاں جائیں ؟ان غریبوں کی کھڑی فصلیں سیلابی پانی میں بہہ جاتی ہیں۔اب یہ غریب اور مجبور بے سہارا لوگ اپنی کون کون سی’’ بدنصیبی ‘‘کا رونا رویں۔اپنے مکانوں کا رونا رویں یااپنی زمینوں کا ۔اپنی فصلوں کا رونا رویں یا اپنی جانوں کا ،جو کھلے آسمان تلے ’’بے یارو مدد گارخدا‘‘ کے سہارے پڑے ہوتے ہیں جہاں ان کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے ،انکے علاج معالجے کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ قیام ِ پاکستان سے لیکر اب تک ہمیں 20 بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جن میں ماضی قریب میں تین سیلاب ہماری کمزور معیشت کو زک پہنچاچکے ہیں جن میں 2010ء ، 2011ء اور 2012 ء کے سیلاب شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کیمطابق ہماری قومی پیداوار (GDP) کو ان بارشوں اور سیلابوں کی تباہ کاریوں سے جو نقصان ہو رہا ہے وہ ہماری فی کس آمدنی کی نشوونما سے بھی زیادہ ہے، جوکہ تمام ایشیائی ممالک میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان نقصانات کا تخمینہ ہماری قومی پیداوار کے 2 فیصد کے قریب ہے جس کو پورا کرنا ہماری کمزور معیشت کیلئے فی الوقت تقریباً ناممکن ہے۔ انٹرنیشنل ریڈکراس کے اعدادوشمار کے مطابق 2025 ء تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے 50 فیصد سے زیادہ لوگ سیلاب اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہونگے جوکہ یقینا ایک انتہائی خطرناک پشین گوئی ہے کیونکہ ان ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس وقت یقینا وسائل کی کمی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ان قدرتی آفات کا سامنا کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ ایک اندازے کیمطابق ہماری زمین کا 90 فیصد حصہ زلزلے جب کہ تقریباً60 فیصد سائیکلون اور سیلاب کے خطرے سے دوچار نظر آتا ہے اور کسی بھی قدرتی آفت کے نتیجے میں ہم ایک انتہائی مخدوش صورتحال کا شکار ہوسکتے ہیں، محکمہ موسمیات کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ہونے والی بارشوں کا 75 فیصد صرف 4 مہینوں یعنی جون سے ستمبر تک ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ 2013 ء کے مون سون میں ہونے والی بارشوں سے 15 لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ 80,000 گھر تباہ ہوئے اور 1.45 ایکڑ سے زیادہ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ موجودہ حکومت اگر کچھ کرنا چاہتی ہے تو ہر شہر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا دے تاکہ شہروں میں انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو ۔لوکل ڈیم بنائیں ۔ شجر کاری کریں تاکہ سیلاب کی آفت سے بچا جا سکے ۔ ’’اچھا فیصلہ ‘‘۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے گورنمنٹ ہاؤس مری کوعوام کیلئے کھولنے کاافتتاح کردیا گورنمنٹ ہاؤس مری کے لان میں پودا لگا کر شجرکاری کابھی افتتاح کیا۔ عوام اب ادائیگی کرکے گورنمنٹ ہاؤس مری میں قیام و طعام کی سہولت حاصل کی جاسکے گی۔ گورنمنٹ ہاؤس مری کا ’’بوتیک ہیریٹج ریزارٹ‘‘کی حیثیت سے ا فتتاح ایک شاندار موقع ہے۔سرکاری عمارتوں کو ریسٹ ہاؤس میں بدلنا دراصل وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا آغاز ہے۔ سیاحت کا فروغ تحریک انصاف کی حکومت کی ترجیحات میں اولین ہے جبکہ ماضی میں اس شعبے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ اس شاندار عمارت کی گولڈن جوبلی ہوئے بھی 15 سال گزر چکے ہیں اور اس پرشکوہ عمارت کو ملکہ برطانیہ، امریکی صدر، شاہ افغانستان سمیت متعدد عالمی شخصیات کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے۔ایسی تاریخی عمارت میں قیام کسی اعزاز سے کم نہیں۔ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومت اب یہ اعزاز اپنے زعما تک محدود نہیں رکھنا چاہتی بلکہ عام لوگ بھی اس سے مستفید ہونگے اور قیام و طعام کی بہترین سہولتوں سے محظوظ ہونگے۔ اسکے ساتھ وزیر اعظم ہائوس اور سرکاری گیسٹ ہائوسز کو بھی کھولا جانا چاہیے ۔موجودہ حکومت نے وزیر اعظم ہائوس میں یونیورسٹی بنا نیکا اعلان کیا تھا ۔ اس پر بھی عمل ہونا چاہیے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024