میاں نواز شریف پاکستان کے وہ خوش قسمت انسان ہیں جنہیں تین بار اس ملک کا اعلیٰ ترین منصب ملا وہ سب سے پہلے 1990ءمیں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 1997ءمیں دوسری بار اس منصب پر ان کا انتخاب ہوا اور 2013ءکے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے وہ تیسری مرتبہ اس عہدے پر فائز ہوئے تو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کا ریکارڈ بھی انکے پاس آگیا۔ ا کی اس حوالے سے قریبی حریف محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں جو اپنی زندگی میں دو مرتبہ اس منصب پر فائز رہیں تھیں۔ ایک لحاظ سے میاں نواز شریف اگر خوش قسمت تھے تو یہ بدقسمتی بھی ان ہی کے حصے میں آئی ہے کہ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے باوجود اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کرسکے۔
قارئین کرام ! اعصاب شکن انتظار کے بعد وزیراعظم محمد نواز شریف کیخلاف بالآخر آنے والے فیصلے میں نہ صرف وہ نااہل ہوگئے ہیں‘ امین اور صادق کے معیار پر پورا نہیں اترتے بلکہ الیکشن کمیشن کے قوانین کی رو سے اب وہ اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قانونی سربراہ کے عہدے سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ جن کو اب نیب میں اپنے بچوں ‘داماد اور سمدھی سمیت ایک ایک ریفرنس کا سامنا کرنا پڑےگا جو چھ ہفتوں میں دائر اور چھ ماہ کے اندر اس کا فیصلہ بھی آئیگا جس کی نگرانی سپریم کورٹ کے ایک جج کے کرنے سے اس امر کی مزید تفتیش ہونے کی ضمانت ہوگی کہ یہ وطن عزیز میں طاقتور ترین عناصر سے حقیقی احتساب کا آغاز ہوگا۔ گو کہ اس فیصلے کو سیاست زدگی اور بعض اداروں سے بنا کر نہ رکھنے جیسے معاملات سے تعبیر کرنے کی گنجائش ہے اور ایسا کہا جانا عین متوقع بھی ہے اس ضمن میں قانونی نکات کا بھی سامنے لانا بعید نہیں لیکن تمام تر امکانات کے باوجود اس فیصلے کو وطن عزیز میں طاقتور عناصر کے احتساب کی پہلی کڑی کے طور پر دیکھنے کی بڑی گنجائش ہے ۔ اس فیصلے کے بعد سندھ کے وزیراعظم کو سزا اور پنجاب کے وزیراعظم کو چھوڑ دینے کے تاثر اور الزامات کا بھی خاتمہ ہونا چاہیئے۔ درحقیقت عدالت شواہد کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہے لیکن اسکے باوجود یہ تاثر بعض اتفاقات کی بنا پر قائم ضرور تھا جس کا اب ازالہ ہونا چاہیئے۔ سینیٹر و وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی پوری طرح اسکی زد میں آئے۔ اس فیصلے کے سیاسی مضمرات جو بھی ہوں اور فیصلے پر سیاسی فوائد اور نقصانات جسکے جس حصے میں آئے ہوں وہ سیاسی جماعتوں کے معاملات ہیں۔ اب جبکہ صاف اور شفاف طریقے سے اس کیس کا فیصلہ سامنے آگیا ہے تو متاثرہ فریق کی جانب سے توجیہات پیش کرنے کی گنجائش ہے اور ایسا کرنا فطری امر ہے لیکن جن جماعتوں کی جدوجہد اور قانونی جنگ کو سرخروئی نصیب ہوئی ہے اگر انکی جانب سے اس معاملے کو سیاست سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور اس فیصلے اور خاندان تک اسے رکھنے پر اکتفا کیا گیا تو انکی جانب سے عملی طور پر اسے وزیراعظم کو عہدے سے محروم رکھنے کے مقصد تک محدود کرنا عملی طور پر ثابت ہو جائیگا جسے حقیقی مقصد کے حصول سے عوامی سطح پر تعبیر نہیں کیا جائےگا۔ اگر محولہ سیاسی جماعتیں اب ایک طاقتور کے احتساب کے بعد ماضی کے حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ اہم شخصیات‘ بیورو کریٹس‘ جرنیلوں اور صحافیوں تک کے احتساب کے عمل میں اسے تبدیل کرنے کی سعی کے طور پر برقرار رکھتی ہیں ان عناصر کیخلاف بھی ہموار فضا میں عدالتوں اور نیب میں زیر التواءمقدمات کو کھولنے کی عوامی اور قانونی جدوجہد کا راستہ چنتے ہیں تو یہ انکے خلوص اور ملک میں حقیقی احتساب اور قوم کا پیسہ لوٹنے والوں کیخلاف حقیقی معنوں میں مہم ہوگی جس کا عوام خیر مقدم کرینگے۔ جہاں تک ملکی اداروں کا سوال ہے ہمارے تئیں اس مقدمے کی کارروائی اور فیصلے تک کے مراحل کا جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اداروں کوماضی کے برعکس اس مرتبہ عوامی تائید و حمایت زیادہ واضح اور بہتر انداز میں حاصل تھی جس کی وجہ سے ایک ایسا ماحول بنا جس میں فیصلہ ساز اذہان کو مصلحتیں اور مصلحتوں پر مبنی نکات تلاش کرنے کی بجائے صاف واضح اور کھرے انداز میں ایک ایسا فیصلہ دینے کا موقع میسر آیا جو ملکی تاریخ میں اہم ترین اور تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا بشرطیکہ اس چلتی گاڑی کو یہیں پر بریک نہ لگ جائے۔ نواز شریف اور انکے اہل خاندان کیخلاف نیب میں ریفرنس بھیجنے کے فیصلے کو اگر خود معزز عدالت کے اس بنچ کے ایک جج کے ریمارکس کی رو سے دیکھا جائے اور نیب کے ماضی مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو ایک گونہ مایوسی کا احساس ہونا فطری امر ہوگا لیکن یہاں عدالت نے ایک جسٹس کی نگرانی اور چھ ماہ کا وقت مقرر کرکے اس کمزوری کو دور کرنے کا بندوبست کر رکھا ہے اسکے باوجود بھی ہمارے تئیں زندہ درگور نیب کو نئی روح بخشنے کیلئے صرف ایک مقدمے میں عدالت کی اتنی دلچسپی اور اقدامات کافی نہیں جب تک نیب کے قوانین اور طریقہ کار میں اس قسم کی تبدیلی نہیں لائی جاتی جس کے نتیجے میں نیب کو ہر طاقتور کا حقیقی احتساب کرنے کے قابل ادارہ نہ بنایا جائے۔ جہاں تک اس فیصلے کے اثرات ومضمرات کا تعلق ہے اس سے انکار نہیں کہ اس فیصلے کے عدالتی‘ عوامی حکومتی اور سیاسی مضمرات ہونگے۔ حکومتی سطح پر وزیراعظم کی نااہلی اور اس کابینہ کی تحلیل کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے پر کرنے کا طریقہ کار موجود ہے جس پر کم سے کم وقت میں عمل کرکے قیام حکومت اور استحکام حکومت کی ذمہ داریاں پوری کی جائیں تمام ریاستی اداروں کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں آئینی و قانونی ذمہ داریوں کو درست انداز میں پورا کریں۔ مسلم لیگ (ن) میں حکومت سازی اور جماعتی قیادت پر جتنا جلد اتفاق رائے سامنے آئے اتنا ہی سب کیلئے بہتر ہوگا۔دریں اثناءگذشتہ اتوار کو پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جو جلسہ منعقد کیا اس میں عمران خان نے ”گو شہباز شریف گو“ کے بڑے نعرے لگوائے اور کہا کہ ہم لاہور کے الیکشن میں کامیاب نہیں ہونے دینگے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران ضمنی الیکشن میں ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کے نمائندے ہی کامیاب ہوئے ہیں لاہور کے الیکشن میں بھی شہباز شریف ہی کامیاب ہونگے کیونکہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں اور حسب سابق عمران خان یہ بیان دینگے کہ ” میاں شہباز شریف دھاندلی کے بل بوتے پر جیتے ہیں“۔ میری اطلاع کے مطابق میاں نواز شریف اور شہباز شریف عنقریب لاہور میں عمران خان کے اسلام آباد میں منعقدہ جلسے کا جواب دینے کیلئے لاہور میں ایک بڑا جلسہ منعقد کر رہے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024