مُلا عمر کے انتقال کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے اسامہ کی موت کو ایک سکینڈل بنایا گیا۔ اسامہ کی موت تو سنا ہے کئی سال پہلے ہو چکی تھی مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ افغانستان کے حریت پسند اپنے وطن کے لئے لڑتے مرتے رہے ہیں۔ دنیا کی ایک بڑی طاقت افغانستان کو تورا بورا بنانے کے بعد بھی بے بسی کا شکار ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر کوئی قوم آزادی کے لئے مرنے مارنے پر ڈٹ جائے تو اسے مظلوم تو بنایا جا سکتا ہے محکوم نہیں بنایا جا سکتا۔
روس افغانستان پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکا تو امریکہ بھی نہیں رکھ سکے گا۔ روس کے آخری صدر گورباچوف امریکہ کو افغانستان میں مستقل رہنے کی غلطی نہ کرنے کا مشورہ دیتے رہے۔ امریکہ کے لئے کبھی اسامہ بن لادن خطرہ بن جاتا ہے کبھی ملا عمر مصیبت بن جاتا ہے۔ اگر کوئی حکمران اپنے لوگوں جیسا ہو اپنے ملک میں قانون اور انصاف کی عملداری قائم کرے تو لوگ اسے ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
ملا عمر افغانستان کا حکمران نہیں رہا تو بھی وہ آج تک امیرالمومنین کے منصب پر فائز ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نے حکومت چلائی کہ گڈ گورننس کے تمام معیارات اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ وہاں اگر غیر ملکی عورتیں بھی گرفتار ہوئیں تو انہوں نے رہائی کے بعد کہا کہ ہم نے ایسے اچھے لوگ دنیا میں نہیں دیکھے۔ اپنے گرفتار لوگوں کے ساتھ گوانتاناموبے جیل امریکہ میں جو سلوک انسانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ عبرتناک ہے۔ افغانستان سے ملا عمر کی حکومت کے دوران کوئی ایسی خبر نہ آئی جس میں کسی زیادتی کی شکایت ہو۔ اس سے بہتر حکومت کا تصور ممکن نہیں ہے۔ نجانے امریکہ کو اس حکومت سے کیوں پرخاش ہوئی۔ یہ بھی خدشہ تھا کہ یہ مسلم حکومت کہلاتی ہے اور اگر اس مثال پر دوسرے ملکوں نے بھی عمل شروع کر دیا تو پھر کیا ہو گا؟
ایک ڈرامائی صورتحال میں صرف ایک مفروضے پر افغانستان پر حملہ کر دیا گیا۔ اس چھوٹے ملک کو زیر و زبر کر دیا گیا مگر زیر نہیں کیا جا سکا۔ آج امریکہ پسپا بھی ہو رہا ہے اور رسوا بھی ہو رہا ہے۔ وہ افغانستان سے نکلنے کے بہانے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جنگ کے میدان سے اکتائے ہوئے لوگ اب مذاکرات کی میز سجانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مذاکرات میں اب چین اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ امید ہے کہ اس کے کچھ نتائج برآمد ہوں گے۔
مجھے ایک شکایت ملا عمر سے ہے کہ انتہائی بہترین انداز میں فلاح و بہبود کے سارے اصولوں کے مطابق حکومت چلانے کے باوجود انہیں چاہئے تھا کہ عسکری ترقی کی طرف بھی توجہ دیتے۔ اسامہ بن لادن ان کا مہمان عزیز تھا تو اس کی دولت استعمال کرکے ایک بہترین فوج کھڑی کی جا سکتی تھی۔ پاکستان کی طرح ایٹمی طاقت نہ بنتے مگر ایران کی طرح اپنی فوجی برتری اس مقام پر لے جائی جا سکتی تھی کہ کسی کو حملہ آور ہونے کی جرات نہ ہوتی۔
ملا کا لفظ بہت مقتدر اور قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ افغانستان میں یہ لفظ مسٹر کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ مگر برسوں پہلے حکیم الامت مفکر پاکستان علامہ اقبال نے کہا تھا
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
ملا کے معاملات زندگی اللہ واسطے فساد ہے اور پھر ملا اور مجاہد کو الگ الگ شکل میں بیان کیا گیا اور یہ بھی اقبال نے کہا۔ ملا عمر نے اگرچہ ملا اور مجاہد کے کردار کو ایک کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جنرل حمید گل ابھی تک اس حوالے سے امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ان کی نظر سے کبھی اقبال کا یہ شعر گزرا ہو گا
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
علامہ اقبال نے برصغیر کے ملائوں کے طرز زندگی کو دیکھ کر یہ بات اخذ کی ہو گی ایک ایسی ضد جو آدمی کو نئے زمانوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے دے۔ کئی طرح کی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ ملا عمر کی شخصیت میں یہ کمی بہت تکلیف کا باعث ثابت ہوئی ہے۔
اسامہ اور ملا عمر کی موت کو پاکستان کے شہروں کے ساتھ منسوب کرے بھی کسی خاص مقصد کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اسامہ کی موت کے لئے بھی کئی سال قبل کی تصدیق موجود ہے اور ملا عمر کے لئے بھی کم از کم دو سال پہلے کی تاریخ دی گئی ہے مگر اس موقعے پر اس کا اعلان بہت معنی خیز ہے۔ اسامہ کے لئے ایبٹ آباد کا ڈرامہ پاکستانی حکومت اور پاک فوج دونوں کو بدنام کرنے اور ناکام ثابت کرنے کی ایک کارروائی تھی۔ اس کے لئے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی خاموشی اور پاکستانی حکومت نے جس طرح اس حادثے کو اپنا کریڈٹ بنانے کی کوشش کی وہ بہت لرزہ خیز ہے۔ صدر زرداری نے امریکی اخبار میں کالم لکھا۔ نااہل وزیراعظم گیلانی نے خوشی کے اظہار کے لئے بیان دیا اور پھر عوام کے دبائو پر دونوں نے اپنے تاثرات واپس لے لئے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسامہ کا نام تو آتا رہا مگر تسلسل کے ساتھ ملا عمر کا نام نہ آیا۔ ان کی موت کے حوالے سے خبریں حیرت انگیز ہیں۔ افغان حریت پسندوں کی کارروائیاں جاری و ساری ہیں۔ اس کے لئے حقانی گروپ امریکہ کے لئے پریشانی کا باعث رہا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جلال الدین حقانی بھی ایک سال قبل انتقال کر چکے ہیں۔ یہ سب خبریں اس موقعے پر کیوں سامنے لائی جا رہی ہیں۔ یہ ٹائمنگ کیا ہے۔ ایک جملہ یاد آتا ہے ’’ڈرو اس وقت سے جو آنے والا ہے‘‘ یہ پہلے سے واقعے ہونے والی خبریں ہیں۔ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟ ملا عمر کے جانشین کے لئے حقانی صاحب کا نام بھی سامنے آ رہا ہے اور یہ امریکہ کو کس طرح قبول ہو گا؟ اس ضمن میں چین کی طرف سے یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ تمام فریقوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024