کشمیریوں کی پاکستان سے وابستہ امیدیں

ضلع گورداسپور میں بھارتی خفیہ اداروں کی طرف سے تھانے پر حملے کے رچائے گئے ڈرامے اور انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے 1993 ء میں ممبئی میں ہونیوالے بم دھماکوں میں بھارتی عدالتوں کی طرف سے بے گناہ مسلمان چارٹرڈ اکائونٹنٹ یعقوب میمن کو محض اس لئے پھانسی چڑھا دینا کہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے تو کیا پھر بھی ہم یقین کر لیں کہ بھارت پاکستان سے تعلقات میں بہتری کیلئے سنجیدہ ہے ؟
انسان کسی محلے‘ بستی یا شہر میں آباد ہو تو اپنے ہمسائے کے شر سے بچنے کیلئے انتہائی اقدام کے طور پر گلی بدل سکتا ہے۔ کسی دوسرے محلے میں منتقل ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی ہمسایہ ملک جارحیت پر اترا ہو‘ دشمنی میں نشان تک مٹانے پر تلا ہو تو پھر جگہ نہیں بدلی جا سکتی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسکے شر سے بچنے کیلئے ہمہ وقت چوکس رہا جائے۔ اس پر کم سے کم اعتبار کیا جائے۔ بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی کوشش ضرور کی جائے تاہم اگر وہ جارحانہ عزائم ترک کرنے کو تیار نہ ہو تو پھر اسے منہ توڑ جواب دینے کا حکم ہمیں ہمارا دین بھی دیتا ہے اور دنیاوی ریت و رواج بھی یہی ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ بھارت سے دوستانہ و برادرانہ تعلقات استوار کئے جائیں۔ تمام تر کشیدگی اور بداخلاقی پر مبنی بھارتی رویے کے باوجود پاکستان نے رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی طرف ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ گزشتہ دنوں روسی شہر اوفا میں شنگھائی کانفرنس میں شرکت کے دوران پاکستانی وزیراعظم کی بھارتی ہم منصب نریندرہ مودی سے ملاقات بھی اسی طرح ہی کی کوشش کا حصہ تھی۔ گو ملاقات کی درخواست بھارت کی طرف سے کی گئی تھی لیکن پاکستان نے ملاقات کے دوران زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ یہ اقدام پاکستان کی روایتی رواداری پر مبنی پالیسی کا حصہ ہے تھی یا بھارت سے وابستہ ہماری قیادت کے کاروباری مفادات کا کمال کہ دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیہ میں مقبوضہ کشمیر اور حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی طرف سے بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی کراچی میں عرصہ دراز سے جاری مسلح مداخلت سے متعلق حیران کن انکشافات کو بشمول دیگر اہم تنازعات کے اعلامیہ میں شامل نہیں کیا گیا جس پر پاکستانی عوام ہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں 68 برسوں سے آزادی کیلئے سرگرم کشمیری بھی مایوسی کا شکار ہوئے اور تاریخ میں پہلی بار بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی اور یٰسین ملک نے نیو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے دی گئی عید ملن پارٹی کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انکے موقف میں شکایت تھی کہ پاکستان کی موجودہ حکومت پہلے واضح کرے کہ ’’وہ کشمیر کاز کیساتھ ہے یا نہیں‘‘ کیونکہ کشمیریوں پر قابض بھارتی افواج و ریاستی تشدد اور تمام تر بھارتی مظالم کے باوجود جب پاک بھارت قیادت کی باہمی ملاقاتوں کے بعد مشترکہ اعلامیہ سے کشمیری ذکر غائب ہو گا تو سفارتی طور پر عالمی سطح پر بھارت یہ پیغام دینے میں کامیاب رہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر خطے میں کوئی ایسا بڑا تنازعہ نہیں ہے۔ جسے پاکستانی میڈیا‘ پاک فوج یا کشمیری قیادت اپنی داخلی‘ سیاسی ضرورتوں کے تحت دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہی کچھ روس کی طرف سے بلائی گئی شنگھائی کانفرنس میں نریندر مودی و نواز شریف کی تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد ہوا جب دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ صاحبان مشترکہ اعلامیہ ذرائع ابلاغ کے سامنے لائے تو بعدازاں بھارت نے مشترکہ اعلامیہ سے یہی مطلب نکال کر دنیا کو دھوکہ دیا کہ دونوں ممالک کی قیادتیں اس بات پر متفق ہیں کہ خطے کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے (وہ دہشتگردی جو پاکستان کی طرف سے بھارت کیخلاف ہو رہی ہے) 2008ء میں ممبئی کے ہوٹلوں پر حملے کوبھارت نے بطور ثبوت اوفا میں بھی کامیابی کے ساتھ پاکستان کیخلاف ایف آئی آر کے طور پر استعمال کیا کہ وزیراعظم نواز شریف ممبئی حملوں کی تحقیقات میں تیزی کے ساتھ پیش رفت پر تیار ہو گئے ہیں۔
حالانکہ ’’اوفا‘‘ روانگی سے قبل بی بی سی کی طرف سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پر لگائے جانیوالے الزامات اور اس سے پہلے نریندر مودی کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت کماردوول کی طرف سے گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے سرگرم تحریک طالبان پاکستان کو بھارت کا اثاثہ قرار دئیے جانے‘ ممبئی جیسے کسی بھی وقوعہ کے نتیجے میں بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے جیسی دھمکیوں اور پاکستان میں ہر طرح کی مداخلت کے اقرار کے بعد وزیراعظم پاکستان کو نریندر مودی پر دوران گفتگو ہر طرح کی برتری حاصل تھی۔ ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے میں بھارت کے بنیادی کردار سے متعلق نریندر مودی کے بیان نے بھی عالمی سطح پر پاکستان کے اس مؤقف کو قبولیت دی تھی کہ بھارت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اور مشرقی پاکستان کی طرز پر اب وہی کھیل بھارتی خفیہ ادارے بلوچستان اور کراچی میں کھیل رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے الحاق کیلئے آئے روز پاکستان کا جھنڈا لہرانے اور سینہ تان کر بھارتی فوجیوں کو پاکستان کیلئے چیلنج کرنے والے کشمیری بجا طور پر پاکستانی وزیراعظم سے توقع کر رہے تھے کہ نریندر مودی اور بھارت سرکار سے دوستی کیلئے وابستہ اپنی امیدوں کے حشر اور بھارتی رویے سے حاصل شدہ تجربات کی روشنی میں وہ نریندر مودی سے پاک بھارت تنازعات اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دو ٹوک بات کرینگے۔
کشمیری بھارت سے آزادی سے کم پر کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بات بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کو یاد رکھنی چاہیے۔