روایات کے قائم ہونے میں قدروں کے پروان چڑھنے میں مدتیں صرف ہوتی ہیں اور اگر یہ استحکام کا جامہ پہن لیں تو پھر انکے شکست آشنا ہونے میں بھی ایک عرصہ لگ جاتا ہے مگر یہ تعجب اور تاسف میں گندھی حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز میں سیاست جن شائستہ، مہذب اور بلند اخلاق رویوں کو اپنائے ہوئے تھی بہت کم مدت میں ان کا رنگ پھیکا پڑ گیا یہ عاجز صحافیوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جس نے سیاست میں وقار اور پھر بے توقیری کے رویوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ 1947ء سے 1958ء تک کے سیاستدانوں کی باقیات جس کی آخری کڑی نوابزادہ نصراللہ خان تھے شائستہ اطوار سیاست کے علمبردار رہے پھر ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں جو رنگ ڈھنگ اپنایا مخالفین کے لئے تضحیک آمیز الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا اور ملکی سیاست پہلی بار ’’اوئے‘‘ کے لفظ سے آلودہ ہوئی پھر ملکی سیاست نے مجموعی طور پر جو رنگ اختیار کیا آغا شورش کاشمیری کے اس شعر میں اس کی پوری تصویر دیکھی جا سکتی ہے:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
اپنی صحافت کے ابتدائی عرصہ میں اس ناچیز نے مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح، خواجہ خیرالدین، مولوی فرید احمد شہید، فضل القادر چودھری شہید، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا حامد بدایونی، مفتی محمود، عبدالولی خان، عبدالصمد اُچکزئی، سردار شوکت حیات، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار نیازی، ائیرمارشل اصغر خان، میاں طفیل محمد، مولانا غلام غوث ہزاری، سردار شیر باز مزاری، چودھری خلیق الزماں، سردار عبدالقیوم خان، خان عبدالقیوم خان، نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر سیاستدانوں کا انداز سیاست دیکھا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کیلئے کبھی صیغہ واحد متکلم استعمال نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اوئے‘‘ مفت تی ی ی ی، اوئے نورا را را رانی، اوئے مودو دو دو دی کا اندازِ تکلم اپنایا تب بھی ان گناہکار کانوں نے ان لیڈروں کی جانب سے بھٹو صاحب، جناب بھٹو کے الفاظ میں جواب سنے ہیں۔
بدقسمتی سے اس غیر شائستہ انداز کو ’’عوامی سیاست‘‘ کا نام دے دیا گیا پھر بھٹو کے اندازِ سیاست نے ایسارنگ جمایا کہ انکے بعد اور بعض ہم عصر لیڈروں نے اسے ہی عوامی مقبولیت کی کلید سمجھ لیا اور عمران خان کے انداز سیاست سے تو لگتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ان کے آئیڈیل ہیں یا کسی نے انہیں مقبول لیڈر بننے کا یہ گر سمجھادیا ہے اگر کوئی اسے خوشامد قرار دے تو اس کی مرضی تاہم نوازشریف دور حاضر کے ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے بہت مشکل حالات میں بھی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا البتہ اسکے باوجود وہ (ن) لیگ کے کارکنوں کو آج کے سیاسی رویوں کی نذر ہونے سے نہ روک سکے۔ جماعت اسلامی اور اے این پی اگرچہ ندی کے دو کنارے ہیں لیکن سیاست میں شائستگی قدرِ مشترک ہے موجودہ سیاسی منظر نامے میں بڑے لیڈر آصف زرداری، عمران خان، الطاف حسین ہیں ان تینوں کے انداز سیاست میں شائستگی اور معروف اعلیٰ اخلاقی قدروں کا سراغ لگانے کیلئے خوردبین سے کام لینا پڑیگا۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کا سیاسی ورکر اور 70ء کی دہائی سے پہلے اور 80ء کی دہائی تک رہ جانے والے باقی ماندہ سیاسی کارکنوں میں زمین و آسمان کا فرق تلاش کیا جاسکتا ہے۔ آج کا ورکر یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ وہ بھوکا پیاسا رہ کر پارٹی کیلئے کام کرے۔ جلسے میں دریاں اور کرسیاں بچھائے او رلیڈر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اس کیلئے اعترافِ خدمت کا سنہری تمغہ بن جائے، میں نے مختلف جماعتوں کے کارکنوں کو پولیس سے لڑتے جھگڑتے، لاٹھیاں کھاتے، جیلوں میں جاتے دیکھا ہے، ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی بھی شجرِ ممنوع نہیں رہی مگر ایک دوسرے کے جلسوں پر دھاوا بولنا، جلوسوں، ریلیوں پر پتھرائو اور ڈنڈے برسانا یہ جدید سیاست کا کلچر ہے، اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن سکرین ایسے افسوسناک واقعات کے عینی شاہد ہیں، یہ دراصل حقیقی لیڈر شپ کے فقدان کا شاخسانہ ہے۔ ملک کے قیام کے بعد نصف مدت سے زائد مارشل لائوں نے لیڈر شپ کے آگے بند باندھ دئیے۔ سیاسی تربیت سے بے بہرہ افراد بلند سیاسی مناصب پر پہنچ گئے وہ خود تربیت یافتہ نہیں تھے کارکنوں کی تربیت کا کیا اہتمام کرتے شاید آج ناقابل یقین ہو مگر میں نے بچشم خود یہ منظر دیکھا کہ ایک گرائونڈ میں ایک پارٹی کا جلسہ ہورہا ہے اور دوسری پارٹی کا جلوس اس گرائونڈ سے باہر سے گزر گیا ایک دوسرے کو دیکھ کر جذبات میں ہلچل ضرور ہوئی مگر اسکا اظہار ایک دوسرے کو گالیاں دیکر نہیں بلکہ اپنے اپنے لیڈروں کے حق میں پُرجوش نعرے لگا کر کیا گیا۔ آج منظر بالکل بدلا ہوا ہے اسکی تازہ ترین جھلک کامونکی میں تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے کارکنوںمیں ہونیوالے تصادم میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے کارکن لندن میں بھی اپنی ’’سیاسی روایت‘‘ کا مظاہرہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک دوسرے پر جوتوں اور خالی بوتلوں کی بارش کر دی، ٹائر جلاکر سڑکوںکو تباہ کرنا اپنے جیسے عام شہریوں کی گاڑیوں پر پتھرائو کرنا راستے روک کر عام لوگوں کو بلا قصور پریشانیوں میں مبتلا کرنا ایسے اقدامات کو احتجاج کا لازمی جزو سمجھ لیا گیا ہے۔ عوام یا کارکنوں کی تربیت کیلئے اکیڈمیاں نہیں ہوا کرتیں لیڈروں کا ذاتی کردار تہذیب و اخلاق کا مظہر سیاسی رویہ ان کی تربیت کا ذریعہ بنتا ہے۔
سیاست میں قائداعظم، لیاقت علی خان حسین شہید سہروردی اور نوابزادہ نصر اللہ خان دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو، آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان رول ماڈل ہیں اسکی روشنی میں ان کے کارکنوں کے طرزِ عمل کو پرکھا جا سکتا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے نوجوان کارکنوں کا مخالفین کیخلاف کا ردِعمل تو کراہت کا باعث بنتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024