ایسے مناظر اب عام ہوتے جا رہے ہیں ۔ میں کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ بنچ اور بار کا ادارہ معاشرے کو متوازن بنانے‘ ظالموں کا ہاتھ روکنے‘ مظلوموں کی دستگیری کرنے کی آخری امید ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے بنچ سے یہ آواز بلند ہوئی۔ اگر عدالت نہ رہی تو وکیل بھی نہیں رہیں گے۔ یہ ایک وکیل کی طرف سے دلیل کے بجائے طاقت کے استعمال کی کوشش کا ردعمل تھا۔ دو دن پہلے لاہور ہائیکورٹ میں لاہور بار کے محترم صدر اور لاہور ہائیکورٹ کی محترمہ جج صاحبہ کے درمیان تلخ کلامی کا نتیجہ وکلاء کے بائیکاٹ اور فاضل جج صاحبہ کے کورٹ روم سے احتجاجاً اٹھ جانے اور رخصت پرجانے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ تو اعلیٰ عدالتوں کا حال ہے۔ ماتحت عدالتوں کی صورتحال تو اور بھی زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ وکلاء میں سے بعض (اور ان کی تعداد کم ہے) حضرات جو ججوں سے الجھنے کو اپنے سائلوں کے سامنے اپنی ’’بہادری‘‘ کے طورپر پیش کرتے ہیں‘ ایسے ہی ایک واقعہ میں گزشتہ ماہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو ہنگامی بنیادوں پر لاہور سے اپنا آفس چھوڑ کر گوجرانوالہ جانا پڑا اور ایک متاثرہ ایڈیشنل سیشن کو ان کی سیٹ پر بٹھا کر اعلان کرنا پڑا تھا کہ میں دیکھتاہو آپ کو کام کرنے سے کون روکتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوا تھا کہ ایک وکیل نے ’’ذاتی طاقت‘‘ کے نشے میں سرشار ہوکر اپنی غیرقانونی بات نہ ماننے پر عدالت کو تالا لگا دیا تھا۔ ایسے واقعات عدالتوں میں وباء کی طرح پھیل رہے ہیں۔ ابھی ایک روز پہلے سپریم کورٹ نے ایک کیس میں ایک وکیل صاحب کے ہتھکنڈوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو وکلاء بے معنی رٹیں دائر کرتے ہیں یا مقدمات کو لٹکانے کیلئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں‘ ثابت ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کیلئے کوئی فورم تشکیل دیا جانا چاہئے۔ یہ بات نہیں کہ صرف کچھ وکلاء ہی عدالتی ماحول کو خراب کرنے یا انصاف کے عمل کو ناقابل اعتبار بنانے کیلئے میدان میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض جج حضرات بھی منفی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ لیکن اس دوسرے حوالے سے اچھا پہلو یہ ہے کہ ایسے جج حضرات کے محاسبہ کیلئے ایک لائحہ عمل موجود ہے۔ ایسے ججوں اور اہلکاروں کے خلاف احتساب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بعض برطرف اور بعض کو دوسرے تعزیراتی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے بنچ کی حد تک صورتحال کنٹرول میں رہتی ہے۔ وکلاء کے محاسبہ کیلئے بھی ایک لائحہ عمل موجود ہے‘ لیکن وہ زیادہ مؤثر نہیں کیونکہ وکلاء کی تعداد کے زیادہ ہونے‘ ہر سال انتخاب میں کردار ادا کرنے کے پس منظر میں بہت سے پریشر گروپ میدان میںآجاتے ہیں اور اس طرح تمام خطاکاروں کے خلاف کارروائی نہیں ہو پاتی۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر بنچ اور بار کے ارکان ایک دوسرے کاطے شدہ احترام اور طے شدہ نظم و ضبط کو سامنے نہیں رکھیں گے تو عدالتوں کیساتھ ساتھ وکلاء کے ادارے بھی ختم ہو جائیں گے۔ قارئین کو یہ یاد ہوگا کہ سابق صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے دور میں موجودہ عدالتی نظام کے بجائے قاضی کورٹس کی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔ جامعہ نعیمیہ لاہور اور بعض دوسرے دینی مدارس میں قاضی کورٹس کے کورس مکمل کئے جاتے رہے‘ لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اور سب کچھ نارمل ہو گیا۔
کچھ عرصہ پہلے جب سوات طالبان کے کنٹرول میں آگیا تو عدالتوںکیساتھ ساتھ وکلاء کے دفاتر بھی بند ہوگئے۔ اس وقت پورے خطے میں سماجی ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل جاری ہے‘ اس کو سامنے رکھتے ہوئے ملک بھر کی وکلاء تنظیموں‘ پاکستان بار کونسل‘ پنجاب بار کونسل‘ ہائیکورٹ بارز‘ ڈسٹرکٹ بارز کے تمام منتخب عہدیداروں کو ایسے وکلاء کے خلاف کارروائی کیلئے مناسب لائحہ عمل اور فورم بنانے کیلئے کام کرنا چاہئے جہاںجھوٹے مقدمات دائر کرنے والے مقدمات کو آنے بہانے لٹکانے والے کیس کی تیاری کرکے میرٹ پر کیس نمٹانے کے بجائے منفی ہتھکنڈوں سے عدالتی عمل کو متاثر کرنے والے گنتی کے وکلاء کے خلاف فوری کارروائی ممکن ہو سکے۔ ایسا کرنے سے عوام کا موجودہ عدالتی نظام پر اعتماد بڑھے گا۔ مقدمات کا دبائو کم ہوگا۔ بنچ اوربار دونوں کے وقار میں اضافہ ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود وکلاء کے پیشے کا مستقبل محفوظ ہو سکے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024