انصاف… دھکا شاہی‘ سکھا شاہی

وزیراعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دودل نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا تھا ’’پاکستان ممبئی کریگا تو اسے بلوچستان سے ہاتھ دھونا پڑینگے۔‘‘ بھارتی حکام شرارتیں، سازشیں اور خباثتیں کرکے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ بھارت میں علیحدگی کی بے شمار تحریکیں چل رہی ہیں جن کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تنظیمیں ردعمل میں دہشتگردی کریں تو بھی بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کے اندر کا چور انہیں پاکستان کی طرف انگلی اٹھانے پر اکساتا اور اٹھلاتا ہے اور پھر میڈیا سمیت سب کی زبانیں پاکستان کیخلاف زہر‘ آگ اور انگارے اُگلنے لگتی ہیں۔ ایسا 2007ء کے ممبئی حملوں اور اب 25 جولائی 2015ء کو گورداسپور میں بس اور تھانے پر مسلح افرادکے دھاوے کے بعد بھی ہواہے۔ ان حملوں میں ایس پی سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے۔ حملہ آور صرف 3 تھے ان پر قابو پانے کیلئے سورما انڈین فورسز کو 12 گھنٹے لگ گئے۔ بھارتی حکمران اور سکیورٹی ادارے اس حملے کو پاکستان کی طرف سے اپنے کرتوتوں کا جواب سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان سے بھی اجیت دودل کی طرح کا کوئی بڑ بولا کہہ دے۔ ’’تم بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کروگے تو جواب میں گورداسپور جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑیگا۔‘‘ گورداسپور واقعہ ہو سکتا ہے سمجھوتہ ایکسپریس میں آتشزدگی کی طرح ’’را‘‘ اور آئی بی کی کارستانی ہو۔ بھارت اس کو لیکر پاکستان پر برس پڑا اور پاکستان بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کے اگست میں ہونیوالے مذاکرات مؤخر کر دیئے۔ ’’متنازعہ معاملات‘‘ طے کرنے کیلئے ان مذاکرات پر اوفا میں نواز مودی ملاقات میں اتفاق کیا گیا تھا۔ ہندو لیڈر شپ بڑی شاطر ’’چَتَرْ‘‘ اور چالاک ہے مگر انڈیا میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا الزام میڈیا یا خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے پاکستان پر فطرتاً اور عادتاً بھی لگا دے تو اس لیڈر شپ کے سکھوں کی طرح بارہ بج جاتے ہیں۔ ایسی ’’مت‘‘ ماری جاتی ہے کہ رام رام کے بجائے انتقام انتقام کی صدا بلند ہوتی ہے۔ انتقام کس سے لیں؟ سامنے نیپال‘ بھوٹان اور سری لنکا جیسے کمزور ہمسائے نہیں‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور چین جیسا طاقتور ایٹمی پاکستان ہے۔اس پر بس نہیں چلتا تو اپنے انتقام کی آگ جیلوں میں قیدبے بس پاکستانیوں پر تشدد کرکے‘ اپنے ہی شہری مسلمانوں کے گھر جلا کر اور مساجد گرا کر بجھائی جاتی ہے۔ اب اسکی بدطینتی، بدنیتی اور بدبختی ملاحظہ فرمائیں، گورداسپور واقعہ کے تیسرے روز 1993ء کے ممبئی دھماکوں کے الزام میں یعقوب میمن کو بڑی عجلت میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
ہمارے ہاں عدلیہ میں ’’دھکا شاہی‘‘ ہوتی ہے۔ ایسے ایسے فیصلے کہ تاریخ بھی شرمسار ہو جائے۔ مولوی تمیزالدین کیس میں جسٹس منیر کی آج تک ’’لاہ پا‘‘ ہو رہی ہے۔ جسٹس انوارالحق اور ارشاد حسن خان اور انکی ٹیموں نے بالترتیب جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے آئین شکنی کے اقدامات کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ ان کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیدیا۔ بے لاگ فیصلے ججوں کے ماتھے کا جھومر‘ بھٹو کو پھانسی جیسے دبائو اور مصلحتوں کے تحت کئے جانیوالے فیصلے‘ فیصلے کرنیوالے ججوں کے ماتھے پر شرمندگی کا داغ ہیں۔ دھاندلی پر بنائے گئے کمیشن کے فیصلے پر ہمیشہ انگلیاں اٹھیں گی‘ کمیشن انکوائری تک محدود رہا، انویسٹی گیشن سے گریز کیا۔ تمام حلقوں سے فارم 15 کیوں منگوائے گئے۔ اگر منگوائے تو 35 فیصد غائب ہونے کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ سر بازار ایک شخص کو قتل کر دیا گیا۔ عدالت میں گواہ منحرف، قاتل بری ۔ 21 جماعتوں نے کہا دھاندلی ہوئی جسکے مظاہر ’’سربازار‘‘ عام آدمی نے بھی دیکھے۔ پی پی پی، پی ٹی آئی، ن لیگ سمیت جس پارٹی اور امیدوار کا بس چلا اس نے خیر کی نہ کوئی کسر چھوڑی۔ جوڈیشل نے فرما دیا الیکشن شفاف ہوئے۔ اس سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی نہ کسی نے مانگا تھا اتنا کہنا ہی کافی تھا منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔ عمران خان انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے پیراگراف نمبر 534 کا حوالہ دیتے ہیں جس میں جوڈیشل کمیشن نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر نتائج حکومت کیخلا ف چلے جائیں تو ریاست پر کتنے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ عمران خان میڈیا میں آجکل جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر تعریفوں کے پل باندھ رہے تو نجی گفتگو میں کہتے ہیں کمیشن نے سچائی اور حکومت میں سے حکومت کا ساتھ دیا۔ 29 جولائی کو کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کو ان کے دو بیٹوں اور نائب غلام رسول شاہ کو 14 افرادسمیت کو پولیس مقابلے میں مار ڈالا گیا۔ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف ایک کیس معرض التوا میں ہے۔ سماعت کے دوران کہا گیا۔’’ ہم ہیں تو فوجی عدالتیں کیوں! ان ججوں کو سلام جنہوں نے جرأتمندانہ فیصلے کرتے ہوئے پانچ سو کے لگ بھگ دہشتگردوں کو سزائے موت سنائی مگر ایسے بھی ہیں جو دہشت گردی کے کیسوں کی سماعت سے قبل ہی دُبک گئے۔ ملک اسحاق پر دہشتگردی کے 100 سے زائد کیس تھے۔ میڈیا رپورٹس کیمطابق ایک کیس کے دوران انہوں نے 99 قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔ 99 کا ذکر ہوسکتا ہے محاورتاً کیا ہو مگر 72 ججوں اور وکیلوں نے اسکے کیس سننے اور پیروی سے معذورت کی۔ 70 سے زائد کیسوں میں وہ باعزت بری ہوئے۔ 1997ء میں وزیراعظم نوازشریف پر حملہ کی ایف آئی آر بھی ملک اسحاق کیخلاف درج ہے۔ 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی ملک اسحاق کو قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں ملک اسحاق کو 70 مقدمات میں عدلیہ نے معصوم سمجھا وہیں اس پارٹی نے بھی ایسا ہی سمجھا جسکے سربراہ پر حملے کی اس پر ایف آئی آر درج ہے۔ کئی معاملات میں رانا ثناء اللہ کو کالعدم تنظیم کا فرنٹ مین بھی سمجھا جاتا ہے۔ ملک اسحاق معصوم یا مجرم‘ اس کا عدالتوں کو فیصلہ کر دینا چاہئے تھا۔ فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں مارے جانیوالوں کے بارے میں ہر کوئی اپنی رائے قائم کرنے میں آزاد ہے۔ قصہ مختصر ہمارے ہاں انصاف کے حوالے ’’دھکے شاہی‘‘ رہی ہے۔ بھارت تو اس حوالے سے نہ صرف ہم سے مصر سمیت پوری دنیا سے آگے ہے۔ بھارت میں ’’سکھا شاہی‘‘ ہے۔ سکھا شاہی میں ایک مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ پھانسی شاہی دربار میں دی جانی تھی۔ مجرم کی گردن زیادہ موٹی تھی۔ اس میں پھندا نہیں کسا جا رہا تھا۔ شاہی فرمان جاری ہوا جسکے گلے میں پھندا پورا آتا ہے اسے لٹکادو۔
یعقوب میمن 1993ء کے ممبئی میں سلسلہ وار دھماکوں کے موقع پر نیپال میں تھا۔ اسکے بھائی ٹائیگر میمن پر اور دائود ابراہیم پر دھماکہ کرنیوالوں کی مالی مدد کا الزام تھا۔ یعقوب میمن کو بھی دھماکوں میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزام کلیئر کرانے انڈیا چلا آیا۔ جہاں اسے بیس سال قید میں رکھ کر اب پھانسی دیدی گئی۔ خود بھارت میں اس فیصلے پر کڑی تنقید ہو رہی ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ یعقوب میمن مجرم ہوتا تو کبھی نیپال سے واپس نہ آتا۔ اس نے بھارتی نظام انصاف پر اعتبار کرکے اپنی جان گنوالی۔ وہ چارٹرڈ اکائونٹینٹ تھا۔ بھارتی حکام کے سر پر گورداسپور واقعہ کے انتقام کا بھوت سوار تھا۔ سپریم کورٹ نے راتوں رات اپیل نمٹائی۔ صدر نے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کئے اور بے گناہ یعقوب میمن بھارت کے سکھا شاہی انصاف کی بھینٹ چڑھ گیا۔