ملا عمر، جلال الدین حقانی پاکستان اور افغانستان کی آزادی کے ہیرو ہیں : سمیع الحق
نوشہرہ/ لاہور (نیوز ایجنسیاں + اپنے سٹاف رپورٹ سے/ دی نیشن رپورٹ) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ دارالعلوم حقانیہ کے چانسلر مولانا سمیع الحق نے طالبان کے امیر ملا محمد عمر مجاہد اور سوویت یونین کے خلاف جہاد کرنیوالے مولانا جلال الدین حقانی کی موت کی خبروں پر ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں لیڈر زندہ ہوں یا موت کا پیالہ پی چکے ہوں، دونوں صورتوں میں انکی ذات سامراجی طاقتوں کے سامنے حمیت، شجاعت، جرأت و بہادری اسلامی ممالک اور پوری انسانیت کے مظلوم اقوام کی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کیلئے ایک آئیڈیل اور نمونہ بن چکی ہے۔ رہتی دنیا تک مسلمان انہیں محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، سلطان ٹیپو شہید، اور سید احمد شہید جیسے عظیم قائدین و فاتحین کی صف میں رکھ کر ان کے لازوال کردار سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ دونوں افراد نے صہیونی اور صلیبی سازشوں سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان یک آزادی، خود مختاری اور سالمیت کو بھی تحفظ دیا۔ دونوں پاکستان اور افغانستان کی آزادی کے عظیم ہیرو ہیں۔ غیور اور محسن شناس قوموں کی طرح آج پاکستان کو بھی انکے شایانِ شان خراج عقیدت پیش پیش ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ سبق کل مصر کے تحریر اسکوائر میں جمع ہونے ہزاروں مصریوں نے حاصل کی۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اسلام میں جہاد و شہادت کا تعلق اشخاص سے نہیں مشن اور مقاصد سے ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ کا مشن قیامت تک جاری و ساری رہیگا۔ مولانا سمیع الحق نے یقین ظاہر کیا کہ کئی سالوں تک ملا عمر کی وفات اور حقانی کے بستر مرگ پر رہنے کے باوجود ان کے جانثاروں نے شمع آزادی کو جلائے رکھا اور انہوں نے خبروں کو چھپائے رکھ کر سیاسی تدبر اور جنگی حکمت عملی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ مولانا سمیع الحق نے بیان کے آخر میں پورے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہوئے متوجہ کیا کہ وہ عالم کفر کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں شایانِ شان خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تعزیتی اجتماعات، ریفرنس اور دعائیہ تقریبات کا اہتمام کریں، تمام مدارس اور مساجد میں بھی فاتحہ خوانی کا اہتمام کریں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ دارالعلوم حقانیہ کے کھلتے ہی 5 اگست بروز بدھ نئے تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب میں ختم قرآن سے ایصال ثواب کیا جائیگا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کسی بھی جگہ طالبان میں اختلافات کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ملا عمر کے بیٹے اور یعقوب اور منصور کا ذکر کیا ہے۔