چینی فوج کی سالگرہ کے موقع پر ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے واشگاف الفاظ اور غیر مبہم لہجے میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور چین کا دشمن ہمارا مشترکہ دشمن ہے، کسی نے اقتصادی راہداری میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اسے سختی سے کچل دیں گے۔
یہ اعلان ا سلئے اہم ہے کہ کہ فوج کے سربراہ نے کیا ہے، اس میں کوئی اگر مگر نہیں، یہ اعلان دفتر خارجہ کا ہوتا تو اسے ایک سیاسی اعلان سمجھا جاتا، اسی دفتر خارجہ نے نائن الیون کے بعد افغان طالبان کو دشمن طاقت قرار دیا تھا اور یہ محض امریکی خوشنودی کے لئے کہا گیا یا امریکی دباﺅ پر، یہی دفتر خارجہ آج افغان طالبان اور عالمی طاقتوںکے درمیان مذاکرات کا میزبان بنا نظر آتا ہے۔
پاک فوج کے لب ولہجے میں ایک اور نمایاں تبدیلی نظرآ رہی ہے، ہم نے سرکاری اور عوامی سطح پر ہمیشہ امریکہ کو اپنا حلیف کہا اور سمجھا بھی مگر پاک فوج نے ہمیشہ امریکہ کے بارے میں ایک محتاط فاصلہ برقرار رکھا، پاکستان نے سیٹو اور سنٹو میں شمولیت بھی اختیار کی مگر ہم نے اپنی ذات کو ان کے اندر مدغم نہیں کیا، من وتو کی تمیز بہر حال ملحوظ رکھی گئی۔ نائن الیون کے بعد گو حکومتی سطح پر ہم لکیر کی اس طرف ہی تھے، جدھر باقی دنیا تھی، مگر پاک فوج نے امریکہ کی اندھی تقلید نہیں کی اور اسے آقا تسلیم نہیں کیا، اسی لئے امریکی حکومت ہمیشہ شاکی رہی کہ پاکستان ڈبل گیم کر رہا ہے۔امریکہ چاہتا تھا کہ ہم اس کے دشمن کو بھی اپنا دشمن سمجھیں اور مل کر ا سکا قلع قمع کریںمگر ہم نے صرف اپنے دشمن سے سروکار رکھا اور جس کسی نے ہماری سرزمین پر دہشت گردی کی، اسی کا قلع قمع کرنے کے لئے ہم نے بالآخر ضرب عضب شروع کی جو غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔
چین میں وہ کیا خاص بات ہے کہ ہمارے آرمی چیف نے اتنا بڑا اعلان کر دیا، اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ پہلے دن سے ہم چین کے ساتھ ا ور چین ہمارے ساتھ کھڑا ہے، پینسٹھ میں بھارتی فوج نے ہمارے خلاف جارحیت کی تو چین نے بھیڑوں کے انتہائی معمولی مسئلے پر بھارت کی چیں بلوا دی۔بھارت کو کان ہو گئے کہ وہ حد سے بڑھا تو ا سکے عقب سے چینی فوج بھارتی سرحد میں داخل ہو جائے گی۔ ہر چند امریکہ کے ساتھ ہمارے تمام معاہدے یہ تھے کہ پاکستان پر کمیونسٹ یا اس کے کسی حلیف نے جارحیت کی تو امریکہ براہ راست مداخلت کرے گا، اکہتر میں بھارت نے کھلے عام سوویت بلاک کی شہہ پر پاکستان کو دو لخت کرنے کے لئے جارحیت کا آغاز کیا، پینسٹھ میں بھی بھارتی جارحیت کا سارا دارومدار روسی اسلحے پر تھا مگر دونوں مرتبہ امریکی بحری بیڑہ کہیں دورآبنائے ملاکہ میں پھنسا رہا۔ مگر چین کاکردار دیکھئے کہ ہم نے اس کے ساتھ کوئی دفاعی معاہدہ نہیںکر رکھا تھا۔ صرف ایک اچھی ہمسائیگی کے تعلقات تھے ،مگر چین نے ہمیں دفاعی طور پر نا قابل شکست بنانے کے لئے ہر حد پار کر دی، ہمیں جدید ترین ٹینکوں کی ٹیکنالوجی دی، میزائل ٹیکنالوجی سے اس طرح لیس کیا کہ دنیا نے یہ الزام لگایا کہ پاکستان نے چین سے بنے بنائے میزائل لے کر تجربہ کر لیا ہے۔پاکستان کے جوہری پروگرام کے راستے میںنہ صرف یہ کہ کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی بلکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کئے بغیر پاکستان سے ہر ممکن تعاون کیا۔ ہماری معیشت کی بہتری کے لئے بھی چین نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اب ہم اندھیروںمیں بھٹک رہے ہیں اور چینی کمپنیاں ہزاروںمیگا واٹ بجلی کی پیدا وار کے لئے اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری پرآمادہ ہیں۔ عام شہری کو لگتا تو یہ ہے کہ چین ہماری موجودہ حکومت پر مہربان ہے مگرپانچ سال پیچھے جا کر دیکھئے کہ زرداری نے بھی چین کے اتنے ہی دورے کئے تھے اور اتنے ہی ایم او یوز سائن کئے تھے مگر مسئلہ نیت کاہوتا ہے، زرداری حکومت ملک کی بہتری کے لئے مخلص نہیں تھی، موجودہ حکومت میں نواز ا ور شہباز دونوں ترقی کے ویژن سے سرشار ہیں۔منصوبوں پر منصوبے بن رہے ہیں، بٹن دبا کر ان کا افتتاح بھی کیا جا رہا ہے ا ور چند برسوں میں قوم ان کا پھل بھی کھائے گی مگر منصوبوں کا منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری ہے جس پر برسوں پہلے سے سوچ بچار ہو رہی ہے، اس منصوبے کی بر وقت تکمیل کے لئے پاکستان نے ایک عرصے سے رابطہ سڑکوں کا جال بچھانا شروع کر دیا تھا، آرمی چیف کے بقول بلوچستان کی حد تک یہ سڑکیں مکمل طور پر تعمیر ہو چکی ہیں اور افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی لاہور کی ایک بریفنگ کے حوالے سے میں تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ فاٹا میں بھی موٹر وے کے معیار کی رابطہ سڑکیں بن چکی ہیں۔یہ ایک طرف تو وسط ایشیا سے پاکستان کی رسائی کو ممکن بنائیںگی اور دوسری طرف پاک چین کوریڈور سے مربوط کریں گی۔ اب باقی جو کام ہے وہ چین نے کرنا ہے ا ور پاک فوج نے اس میں بھی اہم کردار ادا کرنا ہے اور وہ ہے چینی کارکنوں کی سیکورٹی کویقینی بنانا، اس مقصد کے لئے پاک فوج میں ایک خصوصی ڈویژن کھڑا کیا جائے گا۔
اب آئیے مشترکہ دشمن کی نشاندہی کی طرف، اور یہ کوئی مشکل نہیں ہے، پچھلے ایک سال سے ورکنگ بائنڈری اور کنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے اشتعال انگیزی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت ایسا کیوں کر رہا ہے، اس کا صرف ایک مذموم منصوبہ ہے کہ پاک فوج اس محاذ پر الجھ جائے، اور اس کی توجہ دہشت گردی کی طرف سے بھی ہٹ جائے اور پاک چین اقتصادی راہداری کا کام بھی ٹھپ ہو کر رہ جائے، بھارت نے اس پراجیکٹ کی زبانی کلامی مخالفت میں شور مچا رکھا ہے۔ اس لئے اس کے عزائم مخفی نہیں ہیں۔ ہمارے آرمی چیف کی طرف سے راہداری کی تکمیل کے لئے یہ دوسرا بڑا اعلان ہے اور اس میں تو صاف صاف بھارت کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اس نے خطا کی تو سزا پائے گا اور اس میں پاکستان تنہا نہیں ہو گا، چین ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا۔
پاکستان نے چین کی طرف اس قدر واضح جھکاﺅ حادثاتی طور پر نہیں کیا۔ یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہے اور عالمی تناظر میں ہر لحاظ سے بہتر فیصلہ ہے، اس لئے کہ چین دنیا کی مسلمہ اقتصادی قوت ہے، یورپ کی بیماری کے آثار یونان میں ہویدا ہیں، امریکہ جنگوں کی ہوس کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے، مگر چین نے دانش مندی سے اپنے آپ کو ان آلودگیوں سے پاک رکھا ہے۔ وہ عالمی منڈیوں پر حاوی ہے۔
ایک قابل غور نکتہ اور بھی۔ اس وقت چین کو بھی پتہ ہے کہ اس کے ساتھ جس طرح پاکستان خم ٹھونک کر کھڑا ہے، دنیاکا کوئی اور ملک اس طرح اس کے ساتھ نہیں ہے۔ چین یہ بھی جانتا ہے کہ ا مریکہ کے ساتھ اس کے سارے اتحادی مل کر بھی دہشت گردی کی جنگ میں وہ کامیابی حاصل نہیںکر سکے جو اکیلا پاکستان حاصل کر چکا ہے۔ اس سے پاک فوج کی عز ت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے، اس کے سربراہ کو ہر ملک کے دارالحکومت میں خصوصی پروٹو کول ملتا ہے، یہ عزت کمانے والا جرنیل جب یہ کہتا ہے کہ پاکستان اور چین کا دشمن ایک ہے اور اسکا مقابلہ ایک ہو کر کریں گے تو اس کا مطلب تلاش کرنے کے لئے کوئی ڈکشنری نہیںکھولنا پڑے گی۔