حکومت کی نئی پاور پالیسی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی کا نیا سونامی ........ کیا حکمران جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کے درپے ہیں؟
وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں آئندہ پانچ سال کیلئے قومی توانائی پالیسی کی منظوری دیدی گئی جس کے تحت 2015ءتک 400 میگاواٹ کے ہائیڈل منصوبے مکمل ہونگے جبکہ کول کوریڈور منصوبے سے سات ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اجلاس میںبجلی چوروں کو سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کیلئے بجلی اور گیس چوروں کیخلاف مقدمات کی سماعت کیلئے یوٹیلٹی کورٹس بنانے اور ان سے بقایاجات کی وصولی کیلئے الگ الگ آرڈی نینس جاری کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔ اجلاس میں نومبر 2016ءتک نیلم جہلم کا 969 میگاواٹ کا ہائیڈل منصوبہ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نئی پاور پالیسی کے تحت آئندہ تین سے چار سال میں بجلی کی ضرورت پوری کردی جائیگی۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ‘ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے بھی شرکت کی۔ نئی پالیسی کا نام روشن پاکستان رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اجلاس کے بعد بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔ ہم صوبائی حکومتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں‘ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے انکی کوششوں کی حمایت کی جائیگی اور اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کی کوشش کی جائیگی۔
گزشتہ روز ملک کی نئی پاور پالیسی کی منظوری دی گئی تو اسکے ساتھ ہی گزشتہ روز پٹرولیم مصنوعات بشمول پٹرول‘ ڈیزل‘ تیل‘ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کیلئے اوگرا کی بھجوائی گئی سمری بھی وفاقی وزارت خزانہ نے منظور کرلی جس کے تحت عوام کی منتخب حکومت نے عیدالفطر سے قبل عوام کو مہنگائی کے ایک بڑے طوفان کا نیا تحفہ دیا ہے۔ پٹرولیم نرخوں کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کے نئے نرخ 2.73 روپے فی لٹر اضافے سے 104.50 روپے فی لٹر تک جا پہنچے ہیں جبکہ لائٹ ڈیزل کے نرخوں میں 3.95 روپے فی لٹر اور ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں تین روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح مٹی کے تیل کے نرخوں میں 4.99 روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے جبکہ صنعتی صارفین کیلئے بجلی کے نرخ تین روپے فی یونٹ اور کمرشل صارفین کیلئے سوا دوروپے فی یونٹ بڑھائے گئے ہیں۔ گھریلو صارفین کیلئے یکم اکتوبر سے بجلی کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے بقول 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنیوالوں پر بجلی کے نرخوں میں اضافے کا بوجھ نہیں پڑیگا۔
عوام کو گزشتہ دور حکومت سے جن سنگین مسائل کا سامنا ہے‘ ان میں بجلی‘ گیس کی لوڈشیڈنگ اور انکے نرخوں میں آئے روز کے اضافے سے بڑھنے والی مجموعی مہنگائی کے مسائل سرفہرست ہیں۔ سابق دور حکومت میں بھی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ اور مہنگائی پر قابو پانے کے عوام سے وعدے و عید اور بلند بانگ دعوے کرکے وقت گزاری کی کوششیں کی جاتی رہیں مگر حکومت کی بے تدبیریوں‘ بے ضابطگیوں اور قومی خزانے سے اپنی جیبیں بھرنے کی روش نے عوام کو روٹی روزگار‘ غربت‘ مہنگائی اور توانائی کی قلت سے متعلق مسائل سے نجات دلانے کے بجائے ان مسائل کو گھمبیر بنا دیا جس کا نتیجہ سابق حکمرانوں کو 11 مئی کے انتخابات میں سخت عوامی ردعمل کے تحت انکے ہاتھوں بری طرح مسترد ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا جبکہ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف نے انہی عوامی جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا اور انہیں اندھیروں سے نکالنے اور ملکی معیشت کو بحال کرنے کے وعدے کرکے انکی ہمدردیاں حاصل کیں چنانچہ عوام نے اس توقع پر کہ میاں نوازشریف سابق حکمرانوں کے پیدا کردہ گھمبیر مسائل سے انہیں نجات دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) کو بھاری مینڈیٹ دے کر اسکے اقتدار کی تیسری ٹرم کی راہ ہموار کی۔
مسلم لیگ (ن) سے وابستہ عوام کی بے پناہ خواہشات اس امر کی متقاضی تھیں کہ اقتدار میں آتے ہی حکمران مسلم لیگ عوام کو فوری ریلیف اور بالخصوص بجلی‘ گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے عملی اقدامات بروئے کار لائے تاکہ اسکے ساتھ عوام کا اعتماد کا رشتہ ٹوٹنے نہ پائے مگر بدقسمتی سے عوام کو لوڈشیڈنگ میں فوری ریلیف مل سکا‘ نہ انکے روٹی روزگار اور مہنگائی سے متعلق مسائل کے حل کیلئے امید کی کوئی کرن نظر آئی‘ اسکے برعکس آئی ایم ایف سے نئے قرضوں کے حصول کیلئے اسکے ساتھ طے کی گئی شرائط کی بنیاد پر بجلی گیس کے نرخوں میں ہر دس پندرہ روز بعد اضافہ کو معمول بنالیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں عوام کو بجلی بلوں میں جو سبسڈی دی گئی تھی‘ وہ بھی ختم کر دی گئی چنانچہ اب ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کے مصداق موجودہ دورِحکومت میں عوام کی کھال ادھیڑنے کے بعد انکے انجر پنجر کو گھسیٹ کر قبرستان تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانا حکومت کی اولین ترجیح ہے‘ جس کیلئے وزیراعظم نواشریف نے دورہ¿ چین سے اپنی آکوششوں کا آغاز کیا اور وہاں چین کے ساتھ توانائی کے متعدد معاہدوں اور ایم اویوز پر دستخط کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔ میاں نوازشریف دورہ¿ چین سے قبل خود بھی ایوان کارکنان تحریک پاکستان کے فورم پر یوم تکبیر کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے معاشی دھماکہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے جس کے تحت چین کے ساتھ توانائی کے حصول کے معاہدے کئے گئے۔ ان میں بیشتر معاہدے کوئلے اور شمسی توانائی کے ذریعے بجلی اور گیس کی پیداوار بڑھانے سے متعلق ہیں جبکہ ہائیڈل بجلی کے حصول کی جانب ان معاہدوں میں بھی کم ہی توجہ دی گئی۔ حالانکہ کالاباغ ڈیم جیسے دو بڑے ڈیم بنا کر ملک کو بجلی کی پیداوار میں خودکفیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر سابق حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران بھی ہائیڈل بجلی کے حصول کیلئے میگا ڈیمز کی تعمیر سے گریزاں ہیں تو انہیں قوم کو اسکے پس منظر سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔
توقع تو یہی تھی کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں انرجی پالیسی تشکیل دیتے وقت ہائیڈل بجلی کے منصوبوں کو اولین ترجیحات میں شامل کیا جائیگا مگر اجلاس میں صرف چار سو میگاواٹ ہائیڈل بجلی کے حصول پر اتفاق ہوا جس سے یہی مراد ہے کہ حکومت نے کالاباغ ڈیم ہی نہیں‘ دیگر میگا ڈیمز کی تعمیر کے باب بھی بند کر دیئے ہیں۔ اس فیصلے سے کس کی خوشنودی مقصود ہے؟ بادی النظر میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں کمیشن‘ کک بیکس کے لالچ میں آکر ان سے مہنگی ترین تھرمل بجلی کے حصول کا طے کئے بیٹھے ہیں۔ اس وقت پہلے ہی گھریلو صارفین کیلئے بجلی کے نرخ 12 روپے فی یونٹ تک جا پہنچے ہیں‘ اگر حکومت نے نرخوں میں آئے روز اضافے کی روش برقرار رکھی تو بجلی کے نرخ 20 سے 25 روپے فی یونٹ تک جا پہنچیں گے جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونگے۔ اس طرح عملاً ان کیلئے پتھر کے زمانے والی زندگی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ہی عوام پر مہنگائی کا نیا طوفان نازل ہو جاتا ہے۔ وہ ایک جانب مہنگی بجلی اور گیس استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو دوسری جانب روزمرہ استعمال کی اشیاءبھی انکی پہنچ سے دور چلی جاتی ہیں جبکہ ٹرانسپورٹرز پہلے ہی موقع کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں جو اوگرا کی سمری وزارت خزانہ میں پہنچتے ہی کرایوں میں بے مہابا اضافہ کر دیتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی اوگرا کی سمری وزارت خزانہ میں پہنچی تو ٹرانسپوٹروں نے اربن اور بین الاضلاعی روٹوں پر کرایوں میں ناقابل برداشت اضافہ کرکے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ حکومت کی پاور پالیسی کا تو نہ جانے کب عوام کو فائدہ پہنچے گا‘ مگر بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے نے عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا جبکہ لوڈشیڈنگ کے عذاب کا تسلسل بھی ان کیلئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے اور وہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق اپنے حسنِ انتخاب کو کوس رہے ہیں۔
جب براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بھی عوام پر پڑ رہا ہو‘ بجلی‘ گیس کی لوڈشیڈنگ سے فوری نجات کی بھی انہیں کوئی امید نظر نہ آرہی ہو اور بے لگام مہنگائی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہو تو اس صورتحال میں عوام کا ردعمل سابق حکمرانوں کیخلاف ردعمل والا ہی سامنے آئیگا۔ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی بمشکل دو ماہ کا عرصہ گزرا ہے مگر عوام کی مایوسی اس انتہاءکو پہنچ گئی ہے کہ وہ ابھی سے تہہ¿ طوفان کئے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ عیدالفطر سے قبل عوام کو مہنگائی کے نئے ریلے کی نذر کرکے یقیناً سکون اور اطمینان کے ساتھ حکمرانی نہیں کی جا سکے گی۔ اس لئے حکومت کو اپنی عوام دشمن پالیسیوں پر نظرثانی کرکے عوام کیلئے فوری ریلیف کی کوئی تدبیر کر لینی چاہیے۔ حکومت کی مسلط کردہ حالیہ مہنگائی کیخلاف اپوزیشن بھی احتجاجی تحریک کی صف بندی کر رہی ہے‘ کاروباری برادری نے بھی پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے فیصلہ کو مسترد کر دیا ہے اور عام آدمی کی صفوں میں تو ویسے ہی خلفشار موجود ہے‘ اسلئے حکمرانوں کو نوشتہ¿ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ وہ عوام کو گھمبیر مسائل کی جانب دھکیلیں گے تو عوام اسکے جواب میں انکے گلے میں ہار نہیں ڈالیں گے۔ حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عوام کے اعتماد کے رشتے کو توڑ کر اپنے اقتدار کی آئینی میعاد کی تکمیل کا خواب شرمندہ¿ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر سلطانی¿ جمہور میں جمہوریت کا مردہ خراب کیا جائیگا تو پھر جمہوریت کا سفر بھی کھوٹا ہو جائیگا۔