اگر میں کسی کو یہ کہوں کہ ایک شخص کسی کا نام سن کر اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیتا ہے۔ اس کی زندگی کے نشیب و فراز، بیماریاں، مسائل، رزق، سفر وغیرہ تو کوئی بھی میرا یقین شاید نہیں کرے گا اور اگر میں یہ کہوں کہ وہ آپ کو آپ سے بھی زیاد ہ جانتا ہے تو مجھ پر حواس کھوبیٹھنے کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔ یقین تو دور کی بات ہے اور اگر کوئی مجھ پر احسان کرتے ہوئے مان بھی لے تو یہ جواب دے گا کہ اس شخص کے پاس مو¿کل یا جنّ ہوں گے جن کے ذریعے وہ ایسا علم رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسا شخص یقینا موجود ہے کہ جس کے سامنے آپ اپنا یا کسی اور غیر موجود شخص کا نام لیں تو وہ پوری اتھارٹی کے ساتھ شخصیت کا پورا زائچہ بنا کر الفاظ کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور آپ مقام حیرت پر کھڑے دم بخود ہو رہے ہوتے ہیں اور مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ علم مو¿کلات کے ذریعے نہیں بلکہ حروف مقطعات کی بنیاد پر اسے نصیب ہوا ہے۔حروف مقطعات، کہ جن کے بارے میں ہمیں شروع سے بتایا جاتا ہے کہ یہ قرآن کے وہ چودہ حروف ہیں جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور پھر قرآن کی ایک آیت بھی سنائی جاتی ہے کہ ان حروف پر غور و فکر کرنے سے دلوں میں ٹیڑھ (زیغ) پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے لیکن دوسرا نقطہ نظر بھی ہے کہ تاریخ میں حروف مقطعات کے بارے میں کئی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقطعات کا مطلب قطع کرنا ہے۔ اللہ کے ناموں میں سے قطع کرنا، مثلاً ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ”المرا“ الرحمن سے قطع کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے میں دیکھتا ہوں، یہ حروف اللہ کے کسی نام سے بھی ماخوذ ہو سکتے ہیں۔ ابن جویر کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ نے ان حروف سے قسم کھائی ہے اس لئے یہ اللہ کے نام ہیں۔ حروف قطع کرنے کا رواج عرب کے ہاں مروج تھا ورنہ کوئی تو عرب اٹھتا اور قرآن کے اس سٹائل پر معترض ہوتا کہ یہ الفاظ کیا ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے حروف پہلے بھی موجود تھے۔ نبی کریم نے خود فرمایا کہ طہٰ، یٰسین اور حوامیم مجھے حضرت موسیٰؑ کی انواح میں سے دیئے گئے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حوامیم قرآن کا رخسار ہیں۔مسند اہل بیت میں درج ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ کسی شخص سے کئی دفعہ ہماری نہیں بنتی، خواہ وہ کتنا ہی نیک ہو اور کئی دفعہ کسی سے ہماری بہت دوستی ہو جاتی ہے، چاہے وہ اتنا زیادہ متقی اور پرہیز گار نہ بھی ہو۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارواح کو تخلیق کیا تو کچھ کی کچھ کے ساتھ موافقت اور کچھ کی کچھ کے ساتھ مخاصمت ٹھہرا دی گئی۔ وہ روحیں زمین پر آ کر بھی اسی نظم کے تحت رہتی ہیں مثلاً جو حروف اکٹھے رکھ دیئے گئے ہیں ان میں مفائرت یا مخاصمت نہیں ہو گی مثلاً الف لام میم، ان تینوں کی آپس میں دشمنی نہیں بلکہ دوستی ہو گی جس شخص کا نام الف سے شروع ہوتا ہو اس کی ”لام“ کے ساتھ اور ”میم“ کے ساتھ دوستی رہے گی۔ یہ وہ بنیادی گروپ یا Basic Categories اور Adjacent Groupsمیں جن کی آپس میں محبت یا انس Affinityرہے گی لیکن یہ تو بنیادی گروپس ہیں، اس کے بعد ان کے ذیلی گروپس اور Combinationsکا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس پر دسترس حاصل کرنے کے لیے اتنا ہی بڑا علم اور بصیرت چاہیے اور ایک مومن ہی اسے حاصل کر سکتا ہے کہ نبی کریم کی حدیث ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔گزشتہ ہزار سال میں پہلی دفعہ اگر کسی نے اس علم کو مکمل سائنسی بنیادوں پر استوار کیا ہے اور ان حروف کو ’قدر‘ یعنی Values بھی دی ہیں جن کی بدولت وہ نام سنتے ہی کسی شخص کی زندگی کے جلی اور خفی پہلوﺅں تک رسائی پا لیتا ہے، اس کی زندگی کے نشیب و فراز اس کے سامنے کھل جاتے ہیں اور جو یہ علم الاسماءاپنی تشہیر یا طمانیت نفس کے لئے نہیں بلکہ اسمائے ربانی دینے کے لئے کرتا ہے، وہ گوجر خان کے قصبے کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ اہل علم و فکر سے میری درخواست بھی ہے اور دعوت بھی کہ اس علم پر مزید تحقیق اور جستجو کی جائے اور اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یہ علم تمام علوم کی کنجی ہے کیونکہ اس کی بنیاد قرآن ہے اور قرآن تمام علوم کا منبع ہے۔ علم کا کوئی پیاسا قصد کرے اور پوچھے پروفیسر احمد رفیق اختر سے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024