بدلتی رتوں نے ستم ایسے ڈھائے
بتانے لگیں تو زباں لڑکھڑائے
عجب خوف میں مبتلا کردیا ہے
وبائیں کرونا نے بیٹھے بٹھائے
اداسی سی چھا ئی ہوئی ہے وہاں پر
جہاں بھی پڑے اس کے منحوس سائے
سبھی اہل خانہ ہیں مبحوس گھر میں
نکل کر کہیں کوئی جانے نہ پائے
لیا تھا جو راشن وہ ختم ہو چکا ہے
بھلا کوئی کیا اب پکائے یا کھائے
توکل کا دامن نہیں چھوٹے وہ
خدا اپنے بندوں کو جب آزمائے
زمانے نے جانا اسی کو دلاور
مصیبت کے عالم میں جو مسکرائے
دعا ہے یہی کہ خداوند عالم
ہر اک ابتلا سے سبھی کو بچائے
خداکی رضا پر ضیاء راضی رہنا
کبھی دیکھنا نہ قدم ڈگمگائے
شرافت ضیاء
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024