تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کام خود کرتے، جانوروں کو اپنے ہاتھوں سے چارہ ڈالتے، اونٹ باندھتے، گھر کی صفائی فرماتے، سودا سلف خریدتے، دست مبارک سے کپڑوں میں پیوند لگاتے، سلام کرنے میں پہل فرماتے، جوتا خود گانٹھتے تھے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے آپ کے ان کاموں کو دیکھتے ہوئے اس مشکل وقت میں ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہمیں اپنا کام اپنے ہاتھوں سے خود کرنا چاہیے اور ان دنوں میں اپنے ہاتھوں سے کرنے والا سب سے بڑا اور افضل کام یہی ہے کہ باہر نکلیں اور کمزوروں کی مدد کریں۔ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں موجود تھے ایک شخص آیا اور کہنے لگا۔ یارسول اللہ مجھے سخت بھوک لگی ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کوئی ہے جو آج رات اس شخص کی میزبانی کرے۔ ابو طلحہ انصاری اس شخص کو اپنے گھر لے گئے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہؐ کے مہمان ہیں ان کی خدمت کرنی ہے۔ گھر کے بچوں کے حصے کا کھانا اس مہمان کی خدمت میں پیش کیا گیا۔نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر سوئے اور اسکا پڑوسی بھوکا ہے یہ دونوں احادیث ہمیں ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کا سبق دیتی ہیں۔ ان دنوں ہر دوسرے گھر میں مشکل ہے اور ہم نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر عمل کرتے ہوئے ہر ضرورت مند تک پہنچیں۔ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور بھوکوں کو کھانا کھلائیں۔ جسے مالی مدد کی ضرورت ہے اس کی مالی مدد اور جسے کھانے کی ضرورت ہے اسے کھانا اور جسے دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اسے دونوں چیزیں پہنچائیں۔ ان شاء اللہ ہم کسی ضرورت مند کو حکومت کے سر پر نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہم خود مل کر سب تک پہنچیں گے۔ یاد رکھیں ایسا کرنے سے نہ تو عزت میں کمی ہو گی نہ دولت اور خزانہ کم ہو گا بلکہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہر چیز میں اضافہ یقینی ہے کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔اب موجودہ صورت حال پر سیاسی حکومت کی کارکردگی اور ہماری تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے بات کی جائے تو ہر کوئی اپنے انداز میں بات کر رہا ہے۔کوئی کہے کہ یہ کرونا پاکستانی قوم کا امتحان ہے تو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کیونکہ قوم تو انیس سو سینتالیس سے آج تک امتحانوں سے گذر رہی ہے۔ اس قوم نے جتنی مشکلات و مصائب کا سامنا و مقابلہ کیا ہے اس کے لیے کرونا کی مشکل کچھ زیادہ نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ضرور ہو جائے گی۔ جو پہلے ہی مشکل زندگی گذار رہے ہیں انکی زندگی میں تبدیلی تو آسانی پیدا ہونے سے ہوتی ہے مشکلات کا سامنا تو وہ پہلے ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ قوم قیام پاکستان سے اب تک مشکل حالات میں ہی زندگی بسر کر رہی ہے ہر آنے والا حکمران خود کو مسیحا بنا کر پیش کرتا ہے لیکن کوئی بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جو قوم اپنا آدھا ملک، ایک بازو کٹوا کر آگے بڑھ رہی ہے اسے یہ کرونا نے کیا کہنا ہے۔ جس قوم نے ملک کا دو ٹکڑے ہونے جیسا دکھ برداشت کیا ہو اسے کرونا جیسی مشکلات کیا پریشان کریں گی۔ کبھی زلزلے، سیلاب، حکمرانوں کی لوٹ مار، کبھی آمریت تو کبھی جمہوریت عوام تو ہر سانس ہر لمحہ مصیبت میں رہتے ہیں ان مسائل و مصائب میں ایک کرونا اور سہی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عوام کا امتحان نہیں ہے تو کس کا امتحان ہے۔ قارئینِ کرام یہ امتحان صرف اور صرف حکمرانوں کا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عوام تو اپنی مدد آپ کے تحت بہت کام کر لیں گے۔ ہمارے لوگ جیسے بھی ہیں مشکل وقت میں دوسروں کی مدد ضرور کرتے ہیں۔ زلزلوں، سیلابوں اور درجنوں فلاحی تنظیموں کے ساتھ مدد اور تعاون ہمارے اپنے لوگ ہی کرتے ہیں یوں عوامی سطح پر مدد کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ کرونا وائرس کے دوران اس جذبے کا مناسب استعمال بھی حکومت کا امتحان ہے۔ ملک بھر میں پھیلے وائرس کو قابو کرنا حکومت کا امتحان ہے، ملک بھر میں موجود کرونا متاثرین کی دیکھ بھال، علاج معالجے کی بہترین سہولیات کی فراہمی حکومت کا امتحان ہے۔ کرونا کٹس کی دستیابی، ضروری سامان کی بروقت فراہمی حکومت کا امتحان ہے۔ بالخصوص جہاں جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں امتحان زیادہ سخت ہے کیونکہ مرکز میں بھی پی ٹی آئی حکومت میں ہے اس اعتبار سے مرکز پر کارکردگی اور توقعات کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ پنجاب اس حوالے مسائل کا شکار ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم آہنگی و تال میل کی کمی ہے۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کسی بھی ناکامی کے ذمہ دار ہوں گے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیر اعظم عمران خان نے یہ پیمانہ اپنے لیے مقرر کیا ہے کہ وہ تمام فیصلوں کے ذمہ دار ہیں۔ یوں پنجاب کے چیف ایگزیکٹو یہاں کے براہ راست ذمہ دار سمجھے جائیں گے ابھی تک کرونا کا مقابلہ کرنے کا سامان موجود نہیں ہے۔ محکمہ صحت اور وزیر اعلیٰ ہاوس اس مشکل وقت میں ایک صفحے پر نظر نہیں آتا۔ یہ صورت حال موجودہ حالات میں انتہائی خطرناک ہے پنجاب آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے یہاں کرونا متاثرین کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کی کوتاہی کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ نقصان کے دو راستے ہیں ایک کرونا کا از حد مقابلہ کرنے کے باوجود انسانی جانوں کا ضیاع ہے اور دوسرا انتظامی معاملات میں کوتاہی اور تساہل سے پیدا ہونے والے حالات سے انسانوں کو موت کے منہ دھکیلنا ہے جہاں وائرس کو روکنے کا راستہ موجود ہو لیکن انتظامی کمزوری کے باعث حفاظت، تشخیص یا علاج میں کوتاہی کا ذمہ دار وبا کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس طریقے سے ہونے والے نقصان کے ذمہ دار تمام صوبوں کے چیف ایگزیکٹو ہی ہوں گے۔ بھلے وہ سندھ، کے پی کے، بلوچستان ہو یا پنجاب ہر جگہ ایک ہی پیمانے سے کارکردگی کو جانچا جائے گا۔جہاں تک تعلق انسانی ہمدردی کا ہے اس قوم نے آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو آنے والے زلزلے میں ایثار و قربانی کی اعلی مثالیں قائم کی تھیں۔ اس مرتبہ بھی یہ قوم اپنے دکھی اور کمزور بھائیوں کو مایوس نہیں کرے گی۔مختلف اداروں کے جوان اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ان میں ایل ڈبلیو ایم سی کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ موجودہ حالات میں ہر طرح کے کوڑے کو اکٹھا کرنا اور پھر ٹھکانے لگانے تک سارا کام انتہائی خطرناک ہے۔ ہزاروں سینٹری ورکرز نہایت مشکل میں سارا کام کر رہے ہیں ان کے پاس مناسب حفاظتی سامان نہیں ہے۔ حالانکہ ان کے پاس مناسب لباس، ماسک اور گلوز سمیت تمام حفاظتی سامان ہونا چاہیے لیکن اکثریت اس سے محروم ہے۔ گذشتہ دنوں ایل ڈبلیو ایم سی کے سینئر آپریشنل مینجر آصف جٹ کا کرونا ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد بھی اس شعبے سے منسلک افراد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ ڈاکٹرز کی طرح یہ بھی ہر وقت کرونا کے خطرے میں گھرے نظر آتے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ کس گھر سے نکلنے والے کوڑے پر وائرس کے اثرات ہیں۔ حکومت کو جلد از جلد اس شعبے سے منسلک افراد کے مسائل حل کرنے چاہئیں اور تمام حفاظتی سامان مہیا کرنا نہایت اہم ہے۔ جن کی وجہ سے ہمارے گھر صاف ہیں اور ہم معمول کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کا خیال رکھنا حکومت کا فرض ہے۔ یہ عملہ قرنطینہ سنٹرز میں بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ویسے تو کرونا سے بچاو کے لیے بہترین ماسک کا حصول ہی ممکن نہیں ہے جو ماسک عوام بڑی تعداد میں استعمال کر رہے ہیں وہ اتنا موثر نہیں ہے اور کچھ نہیں تو کم از کم حکومت ایل ڈبلیو ایم سی کے ملازمین کو تو حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ کرونا سے صرف لڑنا نہیں عقل سمجھ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ناکام بنانا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024