پچھلے ہفتے میاں عبدالمجید کا کراچی سے فون آیا۔ وہ نیشنل فوڈز کے چیئر مین ہیں۔ سبز ہلالی پرچم کی طرح نیشنل فوڈز بھی پاکستان کی پہچان ہے اور نور بصیرت کے کالم نگار میاں عبدلرشید کی وجہ سے میاں عبدالمجید کی پہچان ہے۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگے، ڈاکٹر رفیق چلے گئے،میاں مجید کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر رفیق کو انیس سو چھپن سے جانتے ہیں جب وہ پی آیچ ڈی کے لئے برطانیہ گئے مگر آکسفورڈ نے انہیں مانچسٹر بھیج دیا کہ پہلے ایم اے کا ایک سال مکمل کریں۔ وہیں مانچسٹر میںمیاں مجید بھی ٹیکسٹائل کی اعلی تربیت کے لئے موجود تھے دونوں ایک فلیٹ میں اکٹھے سال بھر رہے۔ داکٹر رفیق نے ایم اے مکمل کیا اور لندن چلے گئے۔ ان دنوں کی رفاقت دونوں کے درمیان عمر بھر قائم رہی۔ میاں مجید کا آبائی گائوں کلاسکے گوجرانوالہ میں ہے جہاں وہ تین تعلیمی اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں اور انکے سالانہ اجلاسوں میں ڈاکٹر رفیق کو بھی تین دن لے جاتے تھے۔ ا س دور دراز کے گائوں کے بچے اور بچیاں بڑے دھیان سے ڈاکٹر رفئق صاحب کی باتیں سنتے۔ میںنے میاں مجید سے استدعا کی ہے کہ وہ آڈیو کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں مانچسٹرا ور بعد کی زندگی کے بارے میں مجھے مطلع کریں تاکہ میں تفصیل سے ان پر لکھتا رہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے دنیا سے رخصت ہونے کے لئے وہ وقت چنا جب ملک لاک ڈائون میں تھا اور میں ان کے جنازے میں شرکت کے لئے گھر سے فیرو زپور روڈ پر چڑھا تو پولیس نے زبردستی مجھے واپس بھجوا دیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جہاں کسی کاانتقال ہوا ہے، ا سی علاقے کے لوگ ان کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری پولیس حکومتی احکامات کی خود ساختہ تشریح کر لیتی ہے، یوں میں جنازے کے ثواب سے محروم رہا۔
مگر ڈاکٹر رفیق مجھے تین ہفتے قبل اسوقت شدت سے یاد آئے جب وزیرا عظم عمران خان کے پہلو میں بیٹھے ہوئے مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس لئے ہم غذائی قلت کا شکار نہیں ہو سکتے۔ ڈاکٹر رفیق صاحب نے ہوبہو یہی بات چالیس برس قبل پی سی آئی اے کے اجلاس میں کی تھی جس میں ڈبلیو ٹی او کی پابندیوں کا تجزیہ کر رہے تھے، انہوںنے امید افزا لہجے میں بتایا کہ پاکستان کے خلاف جس قدر مرضی عالمی پابندیاں عائد ہو جائیں، یہاں لوگ بھوک کے ہاتھوں نہیں مر سکتے اس لئے کہ ہماری معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور اللہ نے ہمیںہر طرح کی فصلوں اور پھلوں کی نعمتوںسے نوازا ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے آخری ملاقات ان دنوں ہوئی جب کسی نے نظریہ پاکستان فائونڈیشن پر وار کیاا ور عمران خان کو اکسایا کہ حکومت اس ادارے پر قبضہ کر لے، گو ہم مرشد مجید نظامی کی راہنمائی سے محروم ہو چکے تھے مگر ان کے رفیق خاص ڈاکٹر رفیق احمد تو سراپا نظریہ پاکستان ہیں،۔ ان کے ہوتے کسی کو کیسے جرات ہوئی کہ وہ اس ا دارے پر قبضے کا خواب دیکھے۔ اس موقع پر میںنے پی سی آئی اے کے احباب سے کہا کہ ہم نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے دفتر چلتے ہیں اورڈاکٹر رفیق احمد اور ان کے ساتھیوں سے ا ظہار یک جہتی کرتے ہیں۔ یہ ایک یاد گار محفل تھی جس میں ڈاکٹر رفیق صاحب ایک گھنٹے تک بلا تکان بولتے رہے اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کو ہمارے سامنے اجاگر کیا۔انہوںنے وہ ساری تفصیلات بتائیں جو اس ادارے نے مرشد مجید نظامی کی قیادت میں نئی نسل کے اندر نظریہ پاکستان کو روشناس کرانے کے لے برسہا برس سے جاری رکھی ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر رفیق احمد سے میرا وہ تعلق تو نہیں جو ان کے شاگردوں کا ان سے ہو سکتا ہے مگر جب وہ سائوتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ تھے اور پھر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو بڑی باقائدگی سے ان کے ساتھ مباحثہ اور مکالمہ جاری ریا ۔خاص طور پر ہر سال بجٹ کے گورکھ دھندے کو سمجھنے کے لئے توا نہی سے رجوع کیا جاتا تھا، ملک کے معاشی اور سیاسی مسائل پر ان کی گہری نظر تھی،ا سلئے ان کے تجزیئے اور تبصرے انتہائی جاندا ور جامع ہوتے اور ان کی دلیل اور منطق کو کوئی جھٹلا نہیںسکتا تھا۔
قائد اعظم پاکستان کی معاشی پلاننگ کے لئے کیا سوچ رکھتے تھے ا ورا س کے لئے انہوںنے پہلے دس سالہ منصوبے کی تدوین کے لئے کیا کچھ کیا،اس کی تشریح بھی صرف ڈاکٹر رفیق احمد ہی کر سکتے تھے، قائد اعظم کانظریہ تھا کہ پاکستان کو طویل مدت کی منصوبندی کرنی چاہئے تاکہ اس دوران حکومتوں کی تبدیلی سے معاشی حکمت عملی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشی منصوبہ بندی کایہ عمل تواتر سے جارہی رہا اور اس پر عمل کر کے پاکستان ارد گرد کے خطے کا راہنما بن گیا۔ ملائیشیا، تھائی لینڈ ہانگ کانگ ، جنوبی کوریااور سنگاپور کے ماہرین پاکستان کے معاشی ماڈل کی نقالی پر فخر کرتے تھے۔
ڈاکٹر رفیق احمد ہمارے درمیان نہیں رہے، وہ خاموشی سے اس دنیا سے تورخصت ہو گئے مگر ان کی آواز کبھی خاموش نہیں ہو سکتی، وہ قائد اعظم کی روشن کردہ کہکشائوں کا تابناک حصہ بن گئے ہیں جو آنے والی نسلوں کی نظریاتی راہوں کو اجالتی رہے گی۔نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے درو دیوار ان کی سانسوں کی مہک کو بہار کے جانفزا جھونکوں کی طرح ہمارے قلب و ذہن کو معطر رکھیں گی۔
دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ خدا ئے کریم و رحیم ڈاکٹر رفیق احمد کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین!
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024