کرونا وائرس نے دنیا کو ایک قید خانہ میں تبدیل کردیا ہے ۔ ایسے میںگھر میں بیٹھے بیٹھے عجیب عجیب خیالات بھی آتے ہیں ، جن کا اظہار کہیں منفی اور کہیں مثبت انداز میں سوشل میڈیا پر جاری ہے ۔ منچلے اسے مذاق بھی بنائے ہوئے ہیں مگر میرے مؤکل کو عجیب خیال آیا۔ اس کے خیال سے میںبھی سوچ میںپڑ گیا کہ فیصل واڈوا کہاں گئے ۔ ٹیلی ویژن کے بیشتر ٹاک شو میں ان سے رونق لگی رہتی تھی۔ ایک چینل کے اینکر کے پاس تو فیصل واڈوا کی ایک تحریر بھی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بیرون ملک سے لاکھوں افراد پاکستان میں ملازمت کرنے میںآنا شروع ہونے والے ہیں، نہ جانے ایک ٹاک شو میں انہیں کس نے ایک ’’فوجی بوٹ ‘‘ دے دیا جسے وہ ساتھ لے آئے جس سے دیکھنے والوںکو ان پر ہمیشہ کی طرح ہنسی نہیں آئی بلکہ افسوس ہوا۔چونکہ آجکل اداروںمیں تو موبائل فون ساتھ لیجانا مشکل ہے ’’بوٹ ‘‘کیسے آگیا ، اس کا کوئی نہ کوئی ’’اسکرپٹ ‘‘تو ہوگا ۔ پھر دوران گفتگو ٹاک شو میں ہی شاید موصوف کو میسج آیا اور انہوںنے اس بوٹ کو میز کے نیچے رکھ دیا۔ اس ٹاک شو کے بعد موصو ف زیادہ نظر نہیں آئے ۔ کسی ٹاک شو میںاور نہ ہی کسی پرنٹ میڈیا میں ۔بلاشبہ تحریک انصاف میں سنجیدہ لوگ بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہیں ۔ کرونا وائرس کے معاملے پر ساری دنیا اپنے ملک کے عوام کو کم از کم نقصان پہنچانے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ ہم تاخیر سے جاگے، خود کنفیوز ہیں اور عوام کو بھی کررہے ہیں۔ حزب اختلاف کو چھوڑیں کہیںنہ کہیں وہ حکومت پر تنقید کریں انکا حق بنتا ہے مگر اسوقت حزب اختلاف کی نامور جماعتیں ایک صفحے پر کہی جاسکتی ہیں۔عوام ہونگے تو لیڈری بھی ہوگی، اس صورتحال میں حکومت کا رویہ تا حال مخالف جماعتوں کے ساتھ دوستانہ نہیں ہے ، ورنہ پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوںکے اجلاس میں وزیر اعظم کا خطاب کے بعد بقیہ لوگوں کی تقاریر نہ سننا کیا معنی ؟؟ دوماہ سے زائد عرصے کے بعد شائد اب حکومت کو کچھ اقدامات کرنے کی سمجھ آئی ہے۔ وزیر اعظم نے ایک معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس پر ایمانداری سے عمل ہو سیاست نہ ہو۔ یہ اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم ضرورت مند دیہاڑی والوں کی امداد کیلئے ’ٹائیگر اسکواڈ ‘ بنانے کے بجائے اراکین اسمبلی چاہے انکا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو انہیں ایک متعین فنڈ دیتے ، اسکا حساب لیتے۔ چونکہ ضرورت مند افراد صرف پی ٹی آئی کے حلقوں میںنہیں، اس طرح کی تقسیم سے یہ شک ہوگا کہ ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنوں کو ‘‘۔
اس وقت چاہے دیہاڑی والا ، چاہے سفید کالر شخص موجودہ وائرس کی وجہ سے آنے والے معاشی طوفان میں بیرون ملک پاکستانی بھی اسی کشتی کے سوار ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی موٹی موٹی آسامیاںِجو اربوں کی جائیداد کی مالک ہیں اور یہ رقم انہوں نے چاہے ایمانداری یا چاہے کسی بھی طریقے سے اسی ملک سے کمائی ہے ، اپنے خزانے کھولیں۔ شاہد خان ،میاں منشاء ، سر انور پرویز، صدر الدین ہاشوانی، آصف علی زرداری، جہانگیر ترین، میاں نواز شریف فیملی ، ملک ریاض ، ناصر شون، رفیق حبیب اور فیصل واڈوا جیسے لوگ آگے آئیں۔ یہ بات علیحدہ ہے کہ اگر یہ لوگ ملک کی مدد کریں تو یہ ملک قرض دار ہی نہ رہے، یہ ایک طویل بحث ہے کم از کم اگریہ لوگ اس وبائی دور میں ہم وطنوںکی مدد کریں تو کسی کو نہ تو جھوٹے وعدے کرنا پڑینگے ، نہ عوام روٹی کیلئے پریشان ، یہ بات خوش آئند ہے پاکستان کی تاریخ کی ستر سالوں میں پہلی دفعہ سابقہ ، اور موجودہ حکمرانوں کو معلوم ہوا ہے کہ اس ملک میں غریب بھی ہیں اور انکا ڈیٹا اکٹھا کیا جارہے۔ ’’غریبوں کو مبارک ہو ‘‘۔دنیا چیخ رہی ہے کہ social distance اس وائرس کو شکست دینے کیلئے ضروری ہے اور ایک طریقہ ہم مسلمانوںکیلئے یہ کہ مساجد میں اکٹھا نہ ہونا ، اسوقت دنیا بھر میں مشترکہ طور پر دعا ء توبہ کرنے کے تمام تر ذرائع بند ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا ایک طریقہ بھی ہے ۔ نہ ہی گوردوارے ، نہ ہی کلیساء یہاں تک کہ مدینہ منورہ ، روضہ رسولﷺ، مکہ مکرمہ بند ہیں ۔وہاں کی حکومتوں نے اپنے مذہبی رہنمائوںسے مشورہ نہیں کیا بلکہ عوام کو تحفظ دینے کیلئے فوری اقدامات کئے اور بند کر دئیے ، ہمارے لئے مکہ اور مدینہ سے زیادہ بڑی عبادت گاہ کونسی ہے۔ عوام اور یہاں برسرروزگار لاکھوں افراد کے تحفظ کیلئے اسے ایک حکم نامے کے ذریعے بند کردیا جسے تمام مسلم زعماء نے سراہا مگر ہم بضد ہیں ہماری پالیسیاں از خود شکوک پھیلاتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ پاکستان میں وائرس کا کوئی معاملہ ہو، اس نے چین کے شہر ووہان میں پھنسے 800 پاکستانی طلبہ کو وطن واپس نہ آنے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان کی حکومت ان کی واپسی اور ملک میں بیماری پھیلانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔چین نے یقینا ان طلباء کا بھر پور خیال کیا ہوگا اور کررہا ہے۔ مگر تفتان میںکیا ہوا۔ ؟؟ایران سے واپس آنے والے عازمین پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔ حکومتی اعلانات کے باوجود وہاںسے آمد تاحال جاری ہے ۔ خبریں یہ بھی ہیں بارڈر پر موجود اہلکار بھی ملوث ہیں۔ پھر ہمارے منافع خور اور مشکل وقت میںحرام طریقوں سے اپنا الو سیدھا کرنے والے وہ لوگ جو ٹرکوںمیںچھپا کر تمام تر سفری پابندیوںکے باوجود ہزاروںروپے کے عوض ایک شہر سے دوسرے شہر لوگوںکو لے جار ہے ہیں۔ یہ تو انتظامیہ کا ہی کام ہے کہ اسے روکے ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹرک جس پر انسانی اسمگلنگ کی جارہی ہے وہ کسی وزیر ، کسی ممبر اسمبلی ، کسی سیاسی رہنماء کا کیا دھراہوگا ۔کیا کچھ تادیبی کارروائی نہ ہوسکے گی؟ قصہ مختصر وبائی مرض ہے گھروں میں رہ کر اللہ تعالی سے دعائیںکریں، انسانیت کی بقاء کیلئے دھیان دیں۔ دنیا کے دو نجومیوں کے ایک ہمارے شیخ رشید کہتے ہیں: پندرہ دن میں یہ وائرس خاتمے کی طرف جائے گا دوسرے نجومی امریکی صدر ٹرمپ جو کہتے ہیں کہ آئندہ ہفتے امریکہ میں اموات بہت بڑی تعداد میںہونگی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38