مجید نظامی مرحوم جیسے عظیم الشان صحافت کے آسمان کے بعد، صحافت کی دنیا میں لگ رہا تھا کہ خلاء کبھی پُر نہ ہوسکے گا کیونکہ ڈاکٹر مجید نظامی کی خدمات نصف صدی پر محیط تھیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ حکمرانوں کو للکارا کرتے تھے۔ کسی کی جرأت نہ تھی کہ مجید نظامی مرحوم کے آگے بول سیں۔ بڑوں کا بڑا پن اُنہیں عظمتیں اور رفعتیں عطا کرتا ہے۔ آج مجید نظامی مرحوم کے بعد چند ہی بڑے نام رہ گئے ہیں۔ ان میں صحافت کی ایک گرانقدر شخصیت الطاف حسن قریشی کی ہے جو ایک نہایت فعال، متحرک ، مستعد، زیرک اور باکمال صحافی بزرگ ہیں بلکہ انہیں ’’بزرگ‘‘ کہنا بھی اچھا نہیں لگتا کیونکہ وہ بالکل نوجوانوں کی طرح اپنی ذمہ داریاں آج بھی چاق و چوبند طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ وہ عہدِ حاضر کے صحافیوں کیلئے ایک مثال ہیں۔ اُنکی صحافت اور ریاضت صحافتی درسگاہ میں ایک لازمی مضمون کی مانند ہے۔ الطاف حسن قریشی کا مطالعہ ہر صحافی پر واجب ہے تاکہ وہ اپنی زندگی اور صحافتی امور کو الطاف حسن قریشی کے نقشِ قدم پر استوار کر سکے۔ بزرگ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ ادب کے تو تمام بڑے ستون اور مینار اب اپنی آرام گاہوں میں ہیں اور ادب کی دنیا میں چند بڑے ناموں کے سوا کوئی عظیم المرتبت شخصیت نظر نہیں آتی۔ یہی حال ہماری صحافت کا ہے لیکن الطاف حسن قریشی کا نام اور کام عہدِ حاضر کے صحافیوں کیلئے نشانِ راہ ہے۔ میں الطاف حسن قریشی کے نام سے اُس وقت سے واقف ہوں جب ابھی میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ ہمارے گھر اردو ڈائجسٹ آتا تھا جس میں اردو ڈائجسٹ کے اولین صفحات پر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی کے نام درج ہوتے تھے تب اتنی سمجھ تو نہیں تھی کہ ان ناموں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا لیکن ایک مانوسیت اور تلازمہ پیدا ہو گیا تھا۔ غالباً ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اداریہ لکھتے تھے اور الطاف حسن قریشی شاید انٹرویوز یا سیاسی تجزیہ لکھا کرتے تھے جس میں اُنکی انٹرویو لیتے کبھی تصویر بھی ہوتی تھی۔ میں یہ سب نہیں پڑھتی تھی کیونکہ میری عمر کہانیاں پڑھنے کی تھی لیکن میں الطاف حسن قریشی کے نام اور تصویر سے واقف ہو چکی تھی۔ میرے بابا کہتے تھے کہ اردو ڈائجسٹ پاکستان کا سب سے بڑا اور معیاری ڈائجسٹ ہے۔ میں اپنے بابا کے اردگرد ہی رہتی تھی جب وہ علمی ادبی صحافتی موضوعات پر گفتگو کر رہے ہوتے تھے۔ وہ مولانا ظفر علیخان کے بعد حمید نظامی، مجید نظامی، خلیل الرحمان کی شخصیت کو بڑا اہم قرار دیتے تھے۔ اسکے علاوہ میں نے کئی بار الطاف حسن قریشی، عبدالقادر حسن اور مجیب الرحمان شامی کے کالموں کی بارہا تعریف سُنی۔ میری طالبعلمی کازمانہ تھا لیکن میں ان تمام اہم ناموں سے ایک مانوسیت رکھنے لگی تھی۔ ایک دن جب میں مجید نظامی صاحب کے آفس میں بیٹھی کچھ ڈسکس کر رہی تھی تو میں نے پہلی بار الطاف حسن قریشی کو دیکھااور فوراً پہچان لیا۔ میں نے تپاک سے سلام کیا پھر میں دو بڑوں کو باتیں کرتا دیکھ کر چلی گئی۔ دو دن بعد ہی الطاف حسن قریشی نے مجھے ایک سیمینارمیں فون کر کے مدعو کیا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ پھر مجھے کئی بار الطاف حسن قریشی صاحب کو سمجھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ میں نے انہیں ایک اچھا انسان، مہذب صحافی اور محب وطن پاکستانی پایا۔ الطاف حسن قریشی کا صحافت کی دنیا میں بے پناہ کام ہے۔ صحافت میں اُنکے ذکر کے بغیر آپ آگے نہیں چل سکتے۔ الطاف حسن قریشی نے صحافت میں انمٹ نقوش قائم کئے ہیں۔ اُنکے صحافت میں ان گنت کارنامے ہیں۔ وہ صحافت کے لیجنڈ ہیں۔ ماضی سے حال تک ان کا کام پھیلا ہوا ہے۔ مستقبل بھی اُنکے عہد اور کارناموں سے معمور رہے گا۔ حال ہی میں اُن پر ایک اہم کتاب ’’الطافِ صحافت‘‘ شائع ہوئی ہے جسے ڈاکٹر طاہر مسعود نے مرتب کیا ہے۔ یہ ایک ایسی نادر اور بلیغ کتاب ہے جو الطاف حسن قریشی کی پوری شخصیت کا ایک ایک صفحہ بلکہ ایک ایک پرت کھول کر رکھ دیتی ہے۔ پاکستان کے نامور ادیبوں ، شاعروں، دانشوروں، صحافیوں ا ور استادوں نے الطاف حسن قریشی کی شخصیت اور علمی صحافتی کارناموں کو رقم کیا ہے۔ اس کتاب سے صحافت کے اس عظیم لیجنڈ کی صورت گری کی گئی ہے۔ اس کتاب کے توسط سے ہم الطاف حسن قریشی کے شب و روز کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ اس کتاب نے الطاف حسن قریشی کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا ہے اور ہر یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں الطاف حسن قریشی اور صحافت کے حوالے سے قابل مطالعہ مواد یکجا کر دیا ہے۔ اس کتاب سے ذرا پہلے اُن کی ایک اور اہم کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ شائع ہوئی تھی۔ جس میں الطاف حسن قریشی نے اہم شخصیات کے جیتے جاگتے انٹرویوز کئے تھے۔ ان انٹرویوز کی یہ اہمیت ہے کہ مذکورہ انٹرویوز اپنے عہد کے اُن نابغۂ روزگار شخصیات سے کئے گئے ہیں جو اب ہم میں نہیں ہیں۔ الطاف حسن قریشی کا صحافت میں کام دُور دُور تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک دس ہزار صحافی پیدا ہوئے ہونگے لیکن ان دس ہزار صحافیوں میں سے پورا پاکستان سو صحافیوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور وہ سو صحافی صحافت کی آبرو ہیں۔ اُس میں بجاطور پر الطاف حسن قریشی کا نام بھی شامل ہے۔ مسلسل کام، جدوجہد، جستجو، ذہانت، متانت، دیانت ان سب کا مجموعہ الطاف حسن قریشی ہیں۔ الطاف حسن قریشی آج ایک عہدِ صحافت کا نام ہیں جنہوں نے صحافت کے ساتھ ادب، زبان ، اخلاق، تہذیب، پاکستانیت کو فروغ دیا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024