پیر‘ 15؍ رجب المرجب ‘ 1439 ھ ‘ 2 اپریل 2018ء
صدر پاکپتن کا تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان، مانسہرہ کا ایم پی اے ق لیگ میں شامل
پہلے تو ذکر ہو جائے پاکپتن کا جہاں سے تحریک انصاف کے رہنما سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر میاں احمد رضا مانیکا نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ تحریک انصاف سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ جس کی وجہ انہوں نے پریس کانفرنس میں دیدہ پُر نم کے ساتھ یہ بتائی کہ چیئرمین خان صاحب نے تمام روحانی اور اخلاقی حدود کو توڑتے ہوئے پیر اور مرید کے رشتوں کا احترام پائمال کیا۔ جس گھر سے روحانی فیض ملتا تھا اس گھرانے میں نقب لگائی اور پیرنی کو لے اُڑے۔ اس صدمے کی وجہ سے انہوں نے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اب کہیں پہلے دور کی طرح جب پسند کی شادی کرنے یا فیصلے کرنے والوں کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا تھا ۔ کہیں پاکپتن میں خان صاحب کا بھی حقہ پانی بند نہ کر دیا جائے۔ اس سے ان کی پارٹی کو الیکشن میں نقصان ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف خیبر پی کے میں بھی حالات سب اچھا والے نہیں۔ وہاں سے 4 ایم پی ایز کا گروپ مسلسل وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت کیخلاف مورچہ لگائے بیٹھا ہے۔ ان کے کرپشن کے الزامات اور صوبے میں انتظامی بدانتظامیوں پر اب تو نیب والوں کی رگ بھی پھڑک اُٹھی ہے اور وہ بھی نوٹس لے رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب خیبر پی کے میں اپنی حکومت سے اختلاف رکھنے والوں نے مل کر آواز بلند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے کرپشن کیخلاف کام کرنے والے ادارے بھی متوجہ ہو گئے ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ سو وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں ایک خبر یہ بھی ہے کہ مانسہرہ سے تحریک انصاف کے ایم پی اے وجیہہ الزماں ق لیگ میں شامل ہو گئے۔ اب دیکھنا ہے اس کا جواب خان صاحب کیا دیتے ہیں ویسے بھی ق لیگ کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ یاران خرابات البتہ حیران ہیں یہ وجیہہ الزماں نے کیا فیصلہ کر لیا کیا پی پی پی یا ن لیگ وہاں نہیں ہے…
٭……٭……٭
پارٹی کو گھر کی لونڈی بنایا تو شاید رشتہ نہ رہے: چودھری نثار
دل کی بات منہ پر کہہ دینا اچھا لگتا ہے مگر کسی کسی کو۔ اب چودھری نثار صاحب کی بات بھی یہی ہے کہ موقع بے موقع وہ کچھ بھی بول دیتے ہیں جو بات لوگ ہونٹوں میں دبا کر رکھتے ہیں۔ پارٹی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) میں بہت بڑی کھچڑی کی دیگ کب سے پک رہی ہے بس صرف ڈھکن اُٹھانے کی دیر ہے۔ خدا کرے یہ ڈھکن نثار جی کے ہاتھوں نہ اُٹھے۔ ورنہ مدتوں گلہ رہے گا کہ …
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
رنج گلہ شکوہ دوستوں کا حق ہے دوستوں سے ہی کیا جاتا ہے۔ دوست اس کا برا نہیں مانتے۔ میاں صاحب اور چودھری صاحب بھی عرصہ سے دوستی کے اس رشتے میں بندھے ہیں۔ سو برداشت دونوں طرف ہونی چاہئے۔ اب کہ چودھری صاحب کے لہجے کی تلخی بتا رہی ہے کہ وہ بہت بدلے ہوئے ہیں۔ مریم صفدر کے حوالے سے صرف ان کو ہی نہیں بہت سے اور رہنمائوں کو تحفظات ہیں۔ مگر یہ کیا اس مسئلے پر پارٹی سے رشتہ ہی توڑنے کا سوچا جائے۔ اس بار نثار جی نے الیکشن لڑنے کی بات بھی خوب ذومعنیٰ کہی کہ آئندہ ہفتے وہ فیصلہ کریں گے کہ الیکشن کس پلیٹ فارم سے لڑیں گے۔ اب اس کا مطلب کیا ہے وہ پارٹی بدلنا چاہ رہے ہیں یا اسکا مطلب ہے وہ چکری اور ٹیکسلا میں سے کس حلقے کا انتخاب کریں گے۔ یہ بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ عمران خان تو انہیں خوش آمدید کہنے کا عندیہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔
٭……٭……٭
پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری، چیف جسٹس نے بھرتیاں روک دیں
ایک طرف پی آئی اے کی زبوں حالی کا رونا رویا جاتا ہے۔ اس میں سیاسی بنیادوں پر سفارشی بھرتیوں والی فوج ظفر موج کی تباہ کاری کا ماتم ہوتا ہے۔ بدحالی کی وجہ اس قومی ائیر لائن کی نجکاری کا شور بلند کیا جاتا ہے۔ اس سارے کھیل تماشے کے باوجود اس قومی ائیر لائن میں جہاں پہلے ہی تل دھرنے کی جگہ نہیں من پسند افراد کو کھپانے کے لئے مزید بھرتیاں آخر کس کھاتے میں ہو رہی ہیں۔ اب جو نجکاری اور بھرتیوں کا معاملہ عدالت میں پیش ہوا تو پھر عدالت نے ایکشن میں آنا ہی تھا۔ پہلے ہی اس دم توڑتی قومی ائیر لائن کے منافع بخش ائیرکمپنی کو دئیے جانے پر شور اُٹھا تھا اب یہ معاملہ بھی عدالت میں آ گیا ہے۔ اُوپر سے مرے کو مارے شا مدار اس ادارے میں مزید بھرتیاں کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ حقیقت میں تو…
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں
مگر یہاں اُلٹ حساب ہے یہاں تو ڈوبتی کشتی پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے تاکہ وہ جلد از جلد ڈوب جائے۔ اس وقت ا س قومی ادارے کو بوگس ڈگریوں والے غیر ضروری سفارشی بھرتی والے عملے کے بوجھ سے نجات کی ضرورت ہے۔ نہ کہ مزید بھرتی کی۔
٭……٭……٭
لاہور میں پھول تو اُگتے ہیں مگر عوام کو پینے کا پانی نہیںملتا۔ بلاول
سانگھڑ میں صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول زرداری نے پانی پر سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک طرف تو یہ کہا کہ وفاق سندھ کو پانی کے لئے ترسا رہا ہے۔ تو دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ لاہور میں پھول تو اُگتے ہیں مگر عوام کو پینے کا پانی نہیں ملتا۔ اب ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں کوئی کیسے کہہ دیتا ہے۔ سندھ میں پانی کی قلت کا رونا رونے والے بلاول جی کبھی پنجاب کو اس کے حصے سے 40 فی صد کم پانی ملنے کا بھی رونا روتے تو ہم اسے قومی لیڈر کا دکھ کہتے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کو اس کے حصے سے کم پانی دیا جا رہا ہے۔ جس سے پنجاب کی ہری بھری فصلیں مرجھا رہی ہیں کھیت سوکھ رہے ہیں مگر کوئی بھی لیڈر پنجاب کا مقدمہ لڑنے سے ڈرتا ہے کہ اس پر پنجاب کی حمایت کا الزام لگے گا۔ حالانکہ یہی سب سیاسی رہنما ووٹ مانگنے کے لئے آئے روز پنجاب کے دورے کرتے پھرتے ہیں ووٹ بھی مانگتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی پنجاب کے حق میں نہیں بولتا۔ ایک بات سب کی زبان پر ہے کہ پنجاب کو نوازا جاتا ہے۔ ہمیں لوٹا جاتا ہے۔ اب بلاول صاحب ذرا سندھ کی ہی حالت سدھاریں تو بات بنے۔ ذرا جا کر تھر کی حالت دیکھیں خوراک کی قلت اور بیماریوں سے مرنے والے بچوں کی حالت دیکھیں۔ لاہور کو چھوڑیں تھر اور اندرون سندھ نہ پینے کا پانی میسر ہے نہ کھانے کو روٹی علاج تو دور کی بات ہے۔ ادویات کسی کے نصیب میں کہاں۔ ذرا لاڑکانہ اور نوابشاہ کے ہسپتالوں کا ہی دورہ کریں، وہاں دیکھیں کیسے دُھول اُڑتی ہے سہولتوں سے بے نیاز ان ہسپتالوں میں اور کچہرے سے اٹی ہوئی گزرگاہوں پہ…
٭……٭……٭