موجودہ حکومت یہ’’ راگ ا لاپتی‘‘ ہے کہ جب بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں تو ہم’’ مجبورا‘‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑ ھاتے ہیں لیکن اوگرا نے ان کے ’’جھوٹ ‘‘کو عوام کے سامنے کھول دیا ہے ۔حال ہی میں عالمی مارکیٹ میں جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئیں تو ہر مہینے قیمتوں میں اضافے کی تجویز دینے والے’’ اوگرا‘‘ نے ہی حکومت کو کہا کہ اس بار آپ عوام کو’’ ریلیف ‘‘دیں ۔اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں 5روپے سے زائد فی لیٹر کمی کی سفارش کی تھی تاہم پٹرول کی قیمت میں کمی کا مکمل’’ ریلیف صارفین‘‘ کو نہیں دیا اور صرف’’ اونٹ کے منہ میں زیرے‘‘ کے برابر قیمتیں کم کے عوام پر’’ احسان‘‘ کیا جا رہا ہے کہ جیسے حکومت نے’’ حاتم طائی ‘‘کا ریکارڈ توڑ دیا ہو ۔ حالانکہ ابھی بھی حکومت سیلز ٹیکس کی صورت میں عوام کی ’’جیبوں ‘‘پہ ڈاکہ ڈال رہی ہے ۔ ظلم یہ ہے کہ حکومت پٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف’’ عوام کی دہلیز‘‘ تک نہیں پہنچا سکے گی ۔اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں کمی ہو گی نہ ہی ٹرانسپورٹ کے کرائے نیچے آئیں گے ۔ وطن عزیز پاکستان میں اس وقت مہنگائی’’ عروج کو چھو‘‘ رہی ہے اور اشیاء خوردونوش کی قیمتیں’’ آسمان سے باتیں ‘‘کرتی نظر آرہی ہیں۔ اور عوام الناس اس میں اپنے ا پنے’’ زاویہ فکر وسوچ‘‘ کے لحاظ سے تبصرے کرتے نظر آرہے ہیں۔ڈالر کی حالیہ اڑان نے روپے کی’’ ساکھ ‘‘کو بہت متاثر کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ جب روپے کو غیر ملکی کرنسی کی باندی بنا دیا جائے تو اس سے بھی ملک میں’’ معاشی افراتفری‘‘ پھیلتی ہے اور اشیاء کی قیمتوں کو مناسب سطح میں بر قرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی دسترس سے باہر ہو جاناکسی ’’مربوط نظام‘‘ کی عدم دستیابی ہے۔ مہنگائی حد سے بڑھ جائے تو بھوک کا باعث بنتی ہے۔ بھوک بہت سفاک ہوتی ہے ، خالی پیٹ میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ ’’تہذیب و تمدن‘‘ کی سچی جھوٹی سبھی دلیلوں کو’’ جلا‘‘ کر راکھ کر دیتا ہے۔ تبھی کہا جاتا ہے بھوک مٹانے کے لئے روٹی چوری کرنے والے کا نہیں حاکم وقت کا ہاتھ قلم کیا جائے۔ پاکستان میں حالیہ مہنگائی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو اس میںروپے کی بے قدری، تیل کی قیمتوں میں اضافہ سر فہرست ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور تیل کی قیمتیں بڑھنے سے ہمارے ملک میں مہنگائی کا بڑھنا معمول کی بات ہے۔
’’لوڈ شیڈنگ کا حل ‘‘
لوڈشیڈنگ کا ’’جن ‘‘قابو سے باہر ہو گیا ہے گائوں تو گائوں شہروں میں بھی کئی کئی گھنٹے بجلی کا غائب رہنا معمول بن گیا ہے ۔ موجودہ حکومت نے آج سے 5سال قبل یہ نعرہ لگا یا تھا کہ عوام ہمیں اقتدار دیں ہم 3مہینوں میں اس جن کو’’ بوتل میں بند‘‘ کر کے اسے ہمیشہ کے لیے ’’سمندر برد‘‘ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔لیکن 5سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود حکومت کچھ نہ کر سکی ۔اب من پسند کمپنیوں کو پیسے دیکر کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ایک ’’نسخہ کیمیا ‘‘یہ بھی ہے کہ جن جن علاقوں مثلا قبائلی علاقہ جا ت ،کراچی ، کوئٹہ ،اور خیبر پی کے کے کچھ اضلاع جہاں سے’’ بل ‘‘نہیں ملتے وہاں بجلی کم دی جائے اور جو جو علاقے ذمہ داری سے’’ بل ‘‘ادا کرتے ہیں انھیں لوڈ شیڈنگ سے استثنٰی دیا جائے ۔شاید اس طرح کو کام بن سکے ۔حقیقت یہ ہے کہ دْنیا کی مہذب اقوام موثر منصوبہ بندی کی وجہ سے دن دوگنی رات چو گنی ترقی کر رہی ہیں جبکہ اسکے بر عکس ہم ترقی کے بجائے تباہی کیجانب گامزن ہیں دنیا مریخ ، چاند سیاروںاورستاروں پر’’ کمند ‘‘ڈا لے ہوئے ہیںجبکہ ہم 60سال گذر نے کے با وجود بھی اکیسویں صدی میں بجلی اور پانی کے بْنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ پاکستان ’’بے پناہ وسائل‘‘ سے مالا مال ہے مگر ہماری نالائقی، نااہلی اور خود غر ضی کی وجہ سے ہماری قیادت اس سے ’’بھر پور استفادہ‘‘ نہ کر سکی۔ جسکی وجہ سے آئے دن بے شمار مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ہمارے ملک کی اشرافیہ کلاس ،چوروں اور ڈا کوئوں کی طرح ملکی وسائل کو لوٹ کر چند سال کے لئے غائب ہو کر کچھ عرصہ بعد دوبارہ پاکستان کے سیاسی’’ اْفق پر نمودار‘‘ ہو جاتے ہے۔ملک کے زیادہ تر ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اس وقت بچوں میں’’ نفسیاتی بیماریاں‘‘ جنم لے رہی ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ بچوں کی نیند کی کمی اور’’ کم خوابی‘‘ ہے جو زیادہ تر لو د شیڈنگ کی وجہ سے ہے۔ملک کے مْختلف ہسپتالوں میں زیادہ تر مریض آپریشن کے دوران بجلی کی لو ڈ شیڈنگ کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں۔اس وقت ملک کے گردشی قرضے تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچنے سے حجم 1ہزار 6ارب تک پہنچ گیا ہے۔اب حکومت اسے ادا کرنے پوزیشن میں ہی نہیں جس کی وجہ سے حکومت کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں ۔پاکستان آج کل’’ شدید گرم‘‘ اور’’ خشک موسم‘‘ کی زد میں ہے ،کچھ شہروں میں ریکارڈ توڑ گرمی پڑھ رہی ہے۔شہروں میں رہنے والے روزانہ 10 سے ب12گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل رہے ہیں اور بعض اوقات تو انھیں معمول سے ہٹ کر بھی لوڈشیڈنگ برداشت کرنا پڑتی ہے جبکہ دیہات میں رہنے والوں کو تومعلوم ہی نہیں کہ بجلی کب آتی ہے اور کب چلی جاتی ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ تھاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک اکنامک زونز کے لئے بجلی کے جو منصوبے شروع کئے گئے ہیں وہ 2017ء کے اختتام تک مکمل ہو جائیں گے ،لیکن یہ خواب بھی پورا نہیں ہو سکا ۔نیشنل انرجی پالیسی 2013-2018 میں کہا گیا کہ 2017ء تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا جبکہ 2018ء میں بجلی سرپلس ہو گی۔تاہم اب لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی نئی ڈیڈ لائن جون 2018ء مقرر کی گئی ہے۔تب تک انتظار کی سولی پہ لٹکتے رہیں۔
متوقع الیکشن ؟
سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں اور ’’خود ساختہ دانشور ‘‘وہی پرانے’’ راگ الاپ ‘‘رہے ہیں کہ الیکشن ہونگے یا نہیں، کوئی نجومیوں کے ذریعے نئی نئی پشینگوئیاں کر رہے ہیں کہ مستقبل میں کس کی حکومت بنے گی ۔ان کے تجزئیے سن کر لوگ ہنستے رہتے ہیں، بعض’’ تالیاں‘‘ بھی بجاتے ہیں اور بعض واہ واہ اور سبحان اللہ بھی کہتے ہیں، سیاسی لوگ بھی اپنے ’’روپ تبدیل‘‘ کر کے سامنے آرہے ہیں کوئی ماضی جیسے وعدے کرنا شروع ہو گئے ہیں تو کوئی کسی کے عزیز رشتہ داروں کو لا کر ناراض ووٹرز کامنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اس وقت ہمارے معاشرے کو بداخلاق، بدزبان لیڈروں کے بجائے شریف اور نیک سیاستدانوں کی ضرورت ہے، آج معاشرے میں تو ہر طرف، ظلم، فساد، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور ملاوٹ کا دور دورہ ہے، ایسے میں اگر ہم لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تو شرفاء کی زندگی گزار رہے ہیں تو دراصل یہ شرفا کی زندگی نہیں بلکہ بزدلوں کا جینا ہے۔ شرفاء کی زندگی یہ ہے کہ معاشرے میں شرافت کا اقتدار ہو، ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف ہو، لوگوں کو مفت تعلیم، انصاف اور صحت کی سہولیات نصیب ہوں،اس کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024