کوئی تو ہے جو بالا بالا‘ بالادستی چلا رہا ہے
سینٹ الیکشن سے قبل ان کے امیدواروں کو آزاد کر کے ان سے شیر کا نشان چھین لینے کے بعد الیکشن کو مویشی منڈی بنا دینا اور اکثریتی جماعتوں کو بلوچستان کے آزاد امیدوار کو سینٹ کا چیئرمین منتخب کروانے پر مجبور کرنے کے تمام عمل سے پاکستان کے عوام کے اس تاثر پر مہر ثبت کر دی گئی کہ معاملات کو ئی اورچلا رہا ہے۔ ریموٹ کنٹرول سسٹم نے نظام سیاست پر مکمل گرفت حاصل کر لی ہے۔ ایک عام آدمی بھی محو حیرت ہے کہ موجودہ حکومت جو کہ ن کی ہے ‘ اسی حکومت میں اس کے وزیراعظم کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ‘ بات یہیں نہیں رکی بلکہ پارٹی صدارت سے نقش کہن کی طرح مٹانے کی مثال قائم کر دی گئی عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ نیب‘ عدلیہ اور ریموٹ سب نے حکومت وقت کے نمائندوں پر عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔ دیگر مخالفین پر یا تو نظر کرم ہے یا پھر ان سب کے مقدمات کی پیشیوں پر لمبی لمبی تاریخیں دی جا رہی ہیں جبکہ حکومت کے خلاف ہر درخواست پر فوراً ایکشن لیا جا رہا ہے اور جلد از جلد کیس کو نمٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے ایک عام آدمی بھی یہی کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہے کہ معاملات کوئی اور چلا رہا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی سربراہان‘ وزیر حتیٰ کہ سفیر تک چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے سفیر کی ملاقات کے اگلے دن خبر آگئی کہ ہماری فوج سعودی عرب جارہی ہے۔ نواز شریف کی سربراہی کے وقت حکومت مخالف تمام سیاسی و غیر سیاسی رہنما اور تجزیہ نگار سعودی عرب فوج بھیجنے کے سخت مخالف تھے بلکہ نواز شریف کو جلاوطنی میں سعودی مہمان ہونے کا معاوضہ ادا کرنے کے طعنے دے رہے تھے۔ وہی تمام مخالفین اپنی پارلیمنٹ سے پوچھے بغیر سعودی عرب جانے پر ٹک ٹک دیدم… کی تصویر بنے بیٹھے رہے خاص کر پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین تک کی زبان سے ایک بھی لفظ نہ نکلا اتنی زیادہ مخالفت کے بعد اتنی پراسرار خاموشی آخر کیوں؟ رہا پانامہ پر الزام تراشی اور اس کے مقدمہ بازی کا ڈرامہ تو اس کے غبارے سے بلاآخر خود عمران خان نے ہوا نکال دی یہ کہہ کر کہ ’’مقدمہ پانامہ کا تھا مگر عدالت نے اقامہ پر فیصلہ دیا جو کہ ایک کمزور فیصلہ تھا‘‘ یہی کچھ نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ مجھے پانامہ پر سزا دیتے قبول کر لیتا مگر بیٹے سے تنخواہ نا لینے پر سزا دینا اور وہ بھی ایک ملک کے وزیراعظم کو ایک مبہم فیصلے پر اس کے عہدے سے ہٹا دینا اس عمل کو دنیا نے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا۔
پاکستان کے کروڑوں سنجیدہ عوام جو کہ ملک کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ اس صورتحال سے سخت پریشان ہیں ملکی معیشت روز بروز گرتی جارہی ہے کاروبار عدم توازن کا شکار ہے سرمایہ دار طبقہ اپنا سرمایہ نکال رہا ہے ہر کوئی خوفزدہ ہے کہ آنے والے وقت میں کیا ہونے جا رہا ہے بظاہر تو ملک میں ن لیگ کی حکومت ہے مگر یہ حکومت اپنے فیصلے کرنے کی قوت کھو چکی ہے۔ زبردستی اس حکومت کو دن پورے کروائے جا رہے ہیں یہ حکومت بالکل اسی طرح مجبوری میں دن پورے کر رہی ہے جیسے پی ٹی آئی نے نا چاہتے ہوئے بھی زرداری صاحب سے اتحاد کر کے سینٹ کے چیئرمین کو فتح دلوا ئی۔
عوام 1958 سے آمریت کی بالادستی دیکھ رہی ہے اور یہ بالادستی کسی نہ کسی صورت میں سول حکومتوں پر بھی حاوی رہی اور آج کل اس میںشدت دیکھنے میں آرہی ہے باشعور عوام فوج کی طرف سے بار بار جمہوریت میں عدم مداخلت کے اعلانات ماننے کو تیار نہیں۔
عوام تو جانتے ہیں کہ انہیں صاف صاف بتا دیا جائے کہ نواز شریف میں اچانک ایسی کونسی بھیانک سوچ یا منفی عمل ظہور پذیر ہو گیا جس بناء پر اسٹیبلشمنٹ کی نظروں سے گر گیا اگر حقیقتاً ایسی کوئی ملک و عوام دشمنی کی پالیسی کا مرتکب ہوا ہے تو ملک کے وسیع تر مفاد میں ببانگ دہل بتا دیا جائے تاکہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا مؤثر جواب عوام کو مل جائے اور سب کو چپ لگ جائے۔
مگر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کل کے کرپٹ اور اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے دعوے دار دیکھتے ہی دیکھتے آنکھ کا تارا بن جائیں۔ اگر اس بار بالادست قوتوں نے ایسا کیا تو عوام کا ان اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا وہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات محض بدنام کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں۔ 1958ء سے ہی ایسا ہوتا چلا آرہا ہے اور بہت غلط ہوتا آرہا ہے۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ آج کا ترقی یافتہ مغرب بھی دو سو سال قبل کرپشن و بدعنوانیوں کے سمندر میں غرق تھا پھر انہوں نے اپنی بقاء مسلسل انتخابات کے ذریعہ جمہوریت میں دیکھی‘ انتخابات ہوتے گئے اور پہلے سے بہتر لوگ حاکم بنتے گئے اور آج وہ سب ایک بلند مقام پر کھڑے ہیں۔ ہم سے چھوٹے ملکوں نے بھی جمہوریت کے تسلسل سے ہی طاقت پکڑی۔
ہمیں بھی اگر ترقی کی طرف سفر کرنا ہے تو دوسرے بالادست اداروں کو دخل اندازی کی بجائے اپنا کام کرنا چاہئے عوام بہتر جانتے ہیں کہ کون کرپٹ ہے کون ایماندار‘ عوام کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایک بار کرپٹ کو حکومت کو ختم کرنے کے بعد دوبارہ انہیں اپنے سروں پر مسلط کر لیں اب میڈیا اور تعلیم نے لوگوں کو آگہی شعور دیدیا ہے اتنا شعور کہ وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کل تک جنہیں کرپٹ اور بددیانت کہلوا کر حکومت سے باہر کروایا آج کیونکر وہ محب وطن ہو گئے اب عوام ان مسترد لوگوں کو ووٹ نہیں دیتے اور نہ ہی دیں گے عوام جان گئے ہیں کہ یا تو انہیں بہکایا جاتا ہے یا پھرسیاسی رہنماؤں کو چابی سے چلایا جاتا ہے اور جو کوئی چابی سے چلتے چلتے ایک قدم خود سے آگے بڑھا لے تو وہ نظروں سے گرا دیا جاتا ہے۔
یہ سلسلہ اب رک جانا چاہئے مقتدر قوتوں کو ادراک کر لینا چاہئے کہ پاکستان کے عوام باشعور ہو چکے ہیں اس سے قبل کہ تمام ہی مقتدر ادارے عوام کی نظروں میں مشکوک ہو جائیں‘ بہتر ہے کہ ہم سب صرف اور صرف اپنے اپے ذمہ کے فرائض پر نظر رکھیں اور ملک کی خدمت کریں۔