بادشاہ کی دعا
جب غار میں پناہ لی گئی تو ایک چرواہا بکریاں چراتا ہوا ادھر آ نکلا، اس نے دیکھا کہ اجنبی مسافر ہیں اور کھانے کا سامان بھی کم رکھتے ہیں تو اپنی بکریوں کا دودھ دوہ کر صبح شام اُن کی خاطر داری کرنے اور صحبت میں بیٹھنے لگا۔ابھی وہ پوری طرح فیض یاب بھی نہیں ہونے پایا تھا کہ وہ دن آ گیا کہ اُن سب کو ایک پیار بھری تھپکی دے کر سلا دیا گیاجن وہ چرواہا بھی شامل تھا۔وہ سب جس شہر سے تعلق رکھتے تھے اُس کا نام "اداس "تھا اور ظالم بادشاہ کانام دقیانوس تھا لوگ اُ س کے ڈر سے اپنے مذہب کا اظہار نہیں کرتے تھے اور چھپ کر عبادت کرتے تھے مگر ہر کمالے را زوالے ایک دن وہ بادشاہ بھی فوت ہو گیا۔ حکومتیں بدلتیں رہیں لوگ بھی اپنے مذہب یعنی عیسائیت کی طرف لوٹنے لگے یہاں تک کہ ایک نیک دل بادشاہ "بیدروس"تخت نشین ہوا۔اُس نے اڑسٹھ برس نہایت شان و شوکت سے حکومت کی وہ خود بھی عبادت گزار تھا اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا۔مگر اُس کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ لوگ مذہبی فرقہ بندی میں مبتلا ہو گئے شاہد دقیانوس کی نسل سے ہی تھے اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے اور قیامت کا انکار کرنے لگے جس کا بادشاہ کو بہت رنج تھا۔ وہ تنہائی میں ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوندِ قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بے قراری کے کے ساتھ گریہ و زاری کرکے دعا ئیں مانگنے لگا کہ اے اللہ کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تا کہ لوگوں کو مرنے کے بعد جی اُٹھنے اورقیامت کا یقین ہو جائے۔
صدیاں بیت گئیں کسی کو اُس غار تک جانے کی ہمت نہ ہوئی پھر ایک دن ایک چرواہا اپنی بکریاںچراتے ہوئے اونچائی تک چلا گیا کہ اچانک زور کی آندھی اور بارش نے اُس کو آ گھیرا تواُس نے غار کے آگے بڑھے ہوئے پتھروں کے نیچے پناہ لی جب طوفان ذرا تھما تو اُس نے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا تو اُسے محسوس ہوا کہ جیسے ان پتھروں کے پیچھے کچھ ہے اُس نے آہستہ آہستہ اُن کو کھسکانا شروع کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پتھر اپنی جگہ چھوڑتے جا رہے ہیں اور وہاں ایک راستہ بنتا جا رہا ہے جب سارے پتھر ہٹ گئے تو اندر کے منظر نے اُسے دہشت ذدہ کر دیا ،کُتا اپنے پورے رعب اور تمکنت کے ساتھ نگرانی کے انداز میں بیٹھا ہے اور سات نوجوان اپنے روشن چہروں اورصاف ستھرے لباس کے سا تھ ایسے محوِ خواب ہیں جیسے ابھی ابھی کسی لمبے سفر سے آ کے سکون سے سو گئے ہیں اُن کے چہروں کی روشنی سے سارا غار منور ہے۔ اِس سے پہلے کہ خوف سے اُس پہ غشی طاری ہو جاتی وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ اتنے میں اُن نوجوانوں کو ایسے محسوس ہُوا کہ جیسے سورج کی کرنیں اُن پہ آنے کی کوشش کرتی ہیں مگر ایک نہاہیت محبت بھرا ہاتھ ہے جو اُن کی کروٹ بدل دیتا ہے اسی اثنا میں اُن کی آنکھ کھل گئی۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر بولے ارے ہم تو سوتے ہی رہ گئے چلو جلدی سے نماز پڑھ لیںپھر کچھ کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔جب اپنے اسباب پہ نگا ہ ڈالی تو وہ کھانا تو ختم ہو چکا تھا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے البتہ کچھ سکے موجود تھے مگر کچھ لینے اگر شہر جاتے ہیں تو ڈر ہے کہ بادشاہ کے آدمی اُنہیں پکڑ نہ لیں ۔ تب باہمی مشورے سے اُنھوں نے چرواہے کو کہا کہ وہ بازار جائے کیونکہ بادشاہ کے آدمی اس کو نہیں پہچانتے اور ساتھ ہی اُسے کچھ سکے دیئے وہ چونکہ ابھی تک اسلامی تعلیمات سے واقف نہیں تھا اس لئے اُسے بات کرنے کا طریقہ بھی سمجھایا کہ لوگوں سے نرمی سے بات کرناکسی بحث میں میں نہ پڑنا ایسا نہ ہو کہ کسی کو ہماری یہاں موجودگی کا علم ہو جائے
۔وہ شخص جب بازار میں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سب لوگ کھلم کھلا عیسیٰ علیہ لسلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔چرواہ جس کا نام یملیخا تھا محوِ حیرت سب کچھ دیکھتا ہوا ایک نانبائی کی دکان پہ گیا اور دقیانوسی زمانے کا سکہ دکان دار کو دیاجس کا چلن بند ہو چکا تھا بلکہ کوئی اس سکے کو پہچاننے والا بھی نہیں رہا تھا۔دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاہد اس شخص کو کوئی خزانہ ہاتھ لگا ہے ا ُس نے اُسے حکام کے حوالے کر دیا۔مگر وہاں بھی کسی کو نہ تو اس کی زبان سمجھ آ رہی تھی نہ ہی کرنسی کا معاملہ سمجھ میں آ رہا تھا ۔ حکام اُسے بادشاہ کے دربار میں لے گئے وہاں زبان کے ماہرین نے اُس سے پُوچھ گچھ کی تو اُس نے دقیانوس بادشاہ کے بارے میں پُوچھا جب اُسے بتایا گیا کہ اِس نام کے بادشاہ کو گزرے توتین سو نوسال گزر گئے ہیں، تو اُس نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا سب احوال کہہ سنایا۔ ادھر وہ چرواہا بھی شہر میں آ پہنچا اور جو کچھ اُس نے دیکھا تھا لوگوں کو بتانے لگا لوگ تجسس کے مارے ، یا پھر کچھ لوگ جو اُن کی کہانی اپنے بڑوں سے سنتے آئے تھے اُس چرواہے کے ساتھ غار تک چلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ بادشاہ بھی اُسی وقت اُن ماہرین کو لے کر یملیخا کے ساتھ غار کی طرف روانہ ہُوا۔جب وہ غار کے قریب پہنچے تو کتے نے بھونک کے اُن کی آمد کی اطلاع دی غار میں موجود لوگوں نے سمجھا کہ بادشاہ کے آدمی اُن کو پکڑنے آ رہے ہیں لہٰذا وہ غار کے پچھلے حصے کی طرف چلے گئے مگر جب اُن کے ساتھی نے اُن کو حقیقت بتائی تو وہ بادشاہ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے جب بادشاہ اور اُس کے آدمی غار کے اندر آئے تو اُنھوں وہ تختی بھی دیکھ لی جس پہ اُن لوگوں کے نام لکھے تھے تو وہ ہ یک دم پکار اُٹھے "بادشاہ سلامت یہ تو وہی نام اور واقعات ہیں جو شاہی خزانے کے دفتر میںمیں پڑی تختی پہ لکھے ہیںیعنی" یملیخا،مکشلینا،مشلینا،مرنوش،دبرنوش، ذونوانس اورکتے کا نام قطمیر "اور یہ لوگ بھی یہی نام بتا رہے ہیں۔جب سب لوگ حقیقت جان گئے یعنی وہ تو تین صدیاں اور نو سال سوتے رہے تو اصحابِ کہف نے شکرانے کے نفل ادا کئے ، بادشاہ نے چاہ کہ وہ اُن لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے مگر جب وہ اُن کے لینے کے لئے آگے بڑھا تو غار میں اچانک اندھیرا چھا گیاجب اندھیرا چھٹا تو بادشاہ اور لوگوں نے دیکھا کہ اُن سب پہ موت چھا چکی ہے اور غارآہستہ آہستہ نیچے کی طرف بند ہو رہی ہے وہ شہرِ اداس کے باسی اپنے کُتے سمیت بہشتِ بریں میں متمکن ہو گئے۔بادشاہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ غار سے باہر آ گیا۔لوگوں کو خطاب کیا یہ ہے کی نشانی مرنے کے جی اُٹھنے کی اور قیامت بپا ہونے کی۔
بادشاہ کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کر چکی تھی اُس نے اعلان کیا کہ یہاں ایک مسجد بنا دی جائے تا کہ لوگ یہاں آ کے عبادت کریں اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے کی حقیقت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔یوں شہرِ اداس کے باسی اپناعہدہ، گھر بارسب کچھ چھوڑ کر صرف اپنا ایمان بچانے کی خاطر غار نشین ہو کر اور بادشاہ اپنی رعایا کے ایمان بچانے کی دعا مانگ کر سب پہ بازی لے گئے اور رہتی دنیا تک امر ہو گئے۔یاد رکھیے حاکم بھی باپ کی طرح ہوتا ہے جو اپنا دن کاچین اور رات کا آرام عوام کی خاطر قربان کرتا ہے۔ہماری انتہائی بد قسمتی ہے کہ ہم خود ہی ووٹ دے کر اپنے حکمران منتخب کرتے ہیں اور دوسرے ہی دن اُن کے خلاف ہو جاتے ہیں اُن کو ایک دن بھی آرام سے کام نہیں کرنے دیتے۔ دھرنے دے کر اپنے ہی راستے بند کرتے ہیں ۔سڑکیں بلاک کر کے اپنے ہی لوگوںکو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اُن کی توجّہ اُمورِ مملِکت کی بجائے اِن کاموں سے نپٹنے کی طرف مبذُول کروا دیتے ہیں۔اپنے ہی وزیرِاعظموں کو بھرے جلسوں میںگولی مار دیتے ہیں ،ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پھانسی چڑھا دیتے ہیں، جلاوطن کر دیتے ہیں،نااہل قرار دے دیتے ہیں۔کاش ہم بھی اِس قابل ہو جائیں کہ اپنے حکمران کی دعا لے سکیں۔ہمارے حکمرانوں کی دعا بھی پوری ہو سکتی ہے اور ہوئی بھی ہے۔کسی کو یاد ہو یا نہ ہو مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں جب جناب فاروق لغاری صاحب پاکستان کے صد تھے تو ایک سال ایسا آیاکی شدید خشک سالی ہو گئی بارش کا دُوردُورتک امکان نہیں تھا کہ اک دن صدارتی محل میں جناب فاروق لغاری کی امامت میں نمازِ استِقا ادا کی گئی ابھی نماز ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ کھرے آسمان پہ کالی گھٹائیں چھا گئیں اور نمازی رحمتِ باری میں بھیگتے رہے اورپورے ملک میں مُوسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔کاش کہ وہ دن بھی آئے کہ اُداسیوں میں ڈوبے میرے ملک کو کسی بادشاہ کی دعا مل جائے ۔امین (گزشتہ سے پیوستہ)