بلدیاتی سیاست اور حکومت
پاکستان میں کوئی سیاسی قائد یا کوئی غیر سیاسی شخصیت چاہے جتنی بھی قد آور ہو جائے وہ بنیادی طور پر ایک کونسلر، میئر یا مجسٹریٹ کے ہی کام کرتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی سطح کی سیاست کا محور بھی درحقیقت بلدیاتی سیاست ہی ہے۔ وزیر اعلیٰ درحقیقت صوبائی میئر اعلیٰ ہی ہوتا ہے، اسی طرح کا ایک میئر اعظم بھی ہوتا ہے جو اربوں اور کھربوں روپے کے منصوبوں کی نقاب کشائی کرتا نظر آتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہمارے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اپنی روایتی جوشیلی تقریر میں کہہ رہے تھے کہ آج لوگ ذات، برادری اور لسانیت کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کس جماعت نے ان کے حلقے میں کتنا کام کروایا ہے۔ اب اگر وفاقی وزیر اپنے کام گنوانے بیٹھیں گے تو یہ معلوم ہوگا کہ یہ سارے کام کسی کونسلر یا ٹائون چیئرمین یا حد سے حد سٹی میئر کے کرنے کے تھے لیکن وفاقی اور صوبائی اراکین اسمبلی اور وزرا ان ترقیاتی کاموں کے فنڈز اور شاید ٹھیکے بھی خود ہی لے لینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر بھاری رقوم دینے کا رواج کوئی نیا نہیں ہے۔ ایسے ترقیاتی فنڈز کو عام طور پر سیاسی رشوت قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ فنڈز عام طور پر حکمراں جماعت کے اراکین اسمبلی کو جاری کیے جاتے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ایسی سیاسی رشوت سے محرومی کا رونا روتے ہیں، لیکن اتنے برسوں میں حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کی سوچ اور احتجاجی جملے بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ اگر ہمارے اراکین صوبائی اور وفاقی اسمبلی کو اپنے انتخابی حلقوں میں میئر یا یونین کونسل کی طرح کام کرنے میں دلچسپی ہے تو پھر وہ یونین کونسل کے رکن منتخب ہونا کیوں پسند نہیں کرتے تاکہ عوام سے براہ راست رابطے میں رہیں۔
گزشتہ دس برس کے جمہوری دور میں طویل عرصے تک بلدیاتی حکومتیں ہی نہیں بننے دی گئیں بلکہ بیورو کریسی کے سہارے شہروں کا انتظام چلایا جاتا رہا بلکہ اب بھی میئر کراچی وسیم اختر بڑی حد تک بے دست و پا ہی ہیں۔ کم از کم کراچی کی حد تک تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوری حکومتوں کے غیر بلدیاتی دور میں کراچی کا ایسا ستیاناس ہوا جسے درست ہونے میں کم از کم کئی عشرے بیت جائیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو طریقہ کار یہی ہے کہ سٹی کونسل اپنے علاقے سے ٹیکس وصول کرتی ہے جو اسی علاقے کی ترقی پر خرچ ہوتے ہیں لیکن صوبائی حکومتیں ایسا کوئی مالی اختیار بلدیاتی حکومتوں کو نہیں دینا چاہتیں جس سے جمہور مضبوط ہو جائیں۔
اس وقت حال یہ ہے کہ پورے ملک کے عام شہری اپنے چھوٹے چھوٹے شہری مسئلوں کے لیے یونین کونسل کے نمائندوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب سرکاری دفاتر میں لوگوں کی رہنمائی کرنے والوں سے زیادہ گھمانے والے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے عام شہری اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل الجھ کر اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔ اگر نئی حکومت نے بلدیاتی نظام مضبوط اور مربوط بنا دیا اور عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کر دیں تو اس کا اقتدار مضبوط ہو جائے گا۔ شاید اسی وجہ سے آمریتوں کے دور میں بلدیاتی نظام مضبوط بنایا گیا لیکن جمہوری حکومتوں نے اسے کمزور کیا بلکہ بلدیاتی نظام لپیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ شہری حکومتوں کے پاس کیا اختیارات ہیں اور انہیں کتنے وسائل دستیاب ہیں، کسی بھی یونین کونسل کی کامیابی کا انحصار چند بنیادی معلومات پر ہی ہوتا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کسی بھی یونین کونسل کا رقبہ اور آبادی کتنی ہے؟ اس آبادی میں مرد، عورتوں اور بچوں کی صحیح تعداد کیا ہے۔ یہ معلوم ہو کہ اس آبادی میں چھوٹے بڑے کتنے رہائشی یونٹس ہیں۔ ان میں کتنے کرایہ دار ہیں اور کتنے مستقل رہائشی ہیں۔ اس علاقے میں چھوٹے بڑے کتنے کاروبار ہیں۔ دن میں کتنے لوگ کام کرنے کے لیے دوسرے علاقوں میں جاتے ہیں اور دوسرے علاقوں سے کتنے لوگ اس حلقے میں آتے ہیں۔ آبادی کے حساب سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس یونین کونسل میں کتنے تعلیمی اداروں اور طبی سہولتوں کی ضرورت ہے۔ آبادی کے تناسب سے ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی علاقے میں ہر روز کتنا کچرا پیدا ہوتا ہے اور اسے ٹھکانے لگانے کے لیے کتنے افراد اور مشینوں کی ضرورت ہے۔
یونین کونسل کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے علاقے میں کتنی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہیں۔ کتنا ٹریفک اس علاقے کی مرکزی شاہراہوں سے گزرتا ہے۔ ٹریفک کے اسی دبائو کی بنیاد پر کسی بھی علاقے میں فضائی آلودگی کی سطح کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے؟ فضائی آلودگی سے متعلق رپورٹس کی مدد سے ہی کسی بھی یونین کونسل کی حدود میں فضائی آلودگی کم کرنے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ فضائی آلودگی میں کمی لانے کے لیے سڑکیں بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مزید درخت لگانے کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض لوگ بڑی شاہراہوں کے کنارے لگے ہوئے درخت کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کراچی کی بڑی شاہراہوں پر ایسے کٹے ہوئے درختوں کے نشان اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو کوئی بھی کاروبار شروع ہونے کے بعد کاٹے گئے۔ قانونی طور پر درخت کاٹنا منع ہے لیکن کراچی میں دھڑلے سے درخت کاٹے گئے ہیں۔