بالآخر بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور امریکی صدر بارک حسین اوباما نے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں اپنی حکومتی پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں بظاہر پاکستان کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد کا اعلان‘ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کی ’’نوید‘‘ پاکستانی عوام کے احترام اور وطن عزیز کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ مگر راقم کے خیال میں یہ پالیسی پاکستان کیلئے بے حد خطرناک پالیسی ہے اور اگر اس پالیسی کو جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس پالیسی کو آسان ترین زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ پرانی شراب کو نئی بوتل اور نئے لیبل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
اس پالیسی کا اعلان تو حقیقت میں اسی روز ہو گیا تھا جب امریکہ نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالرز مقرر کی تھی۔ بعض قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال جنم لے سکتا ہے کہ پاک افغان پالیسی سے بیت اللہ محسود کے واقع کا کیا تعلق ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں تھوڑا سا ماضی کو کھنگالنا ہو گا اور وہ یہ ہے کہ افغانستان میں جب ملا عمر کی قیادت میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو عالم کفر کے ایوانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا کہ افغانستان پوری دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن گیا ہے یا بن جائے گا لہٰذا کیفیت وہی تھی جس کا اظہار شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی مشہور زمانہ ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں کیا ہے کہ ؎
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیمغبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن‘ مرد آزما‘ مرد آفریں
بعینہ عصر حاضر کے ابلیس ’’جارج ڈبلیو بش‘‘ اور اس کے حواریوں ’’نیٹو الائنس‘‘ نے اپنی مجلس شوریٰ بلائی حالانکہ طالبان افغانستان میں پور ے اسلام کو تو لا ہی نہیں سکے تھے۔ اسلام تو معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی نظاموں کے مجموعے کا نام ہے جبکہ اس جانب تو طالبان انچ بھر بھی پیش رفت نہیں کر سکے تھے۔ انہوں نے تو محض چند شرعی سزائیں نافذ کی تھیں کہ ان کی برکت سے جرائم کی گندگیوں سے اٹا ہوا افغان معاشرہ کرائم فری بن گیا تھا۔ بہرحال یہ صورت حال بھی عالم کفر کے لئے ہضم ہونے والی نہیں تھی اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے امریکی تھنک ٹینکس اور سیاسی پنڈتوں نے سوچ بچار شروع کر دیا اور ایک ایسا منصوبہ گھڑا جس نے پوری دنیا کو بدل کے رکھ دیا اور وہ واقعہ ’’نائن الیون‘‘ تھا۔ اس واقعے کا سارا ملبہ ایک شخص اسامہ پر ڈالا گیا اور اس اسامہ کی تلاش کو بہانہ بنا کر افغانستان پر چڑھائی کر دی گئی ہمیں آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ القاعدہ کیا ہے اور یہ کہاں ہے مگر اس کا فائدہ صرف اور صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہوا ہے۔ افغانستان کے بعد پاکستان میں بھی داخلے کیلئے امریکہ کو ایسے ہی کردار کی ضرورت تھی لہٰذا انہوں نے یہاں اسامہ کی طرح کا ایک اور کردار گھڑا اور وہ بیت اللہ محسود ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں اسے بے نظیر بھٹو کا قاتل ثابت کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہا مگر اب اوباما نے القاعدہ کا نام لے کر دوبارہ بیت اللہ محسود کو بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
اوباما کا بے نظیر بھٹو قتل میں القاعدہ کو ملوث کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ حیران کن بات ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو اس ملک کا صدر بے نقاب کر رہا ہے جو اپنے سابق صدر کینڈی کے قاتلوں کو آج تک گرفتار نہیں کر سکے۔ بہرحال امریکہ نے بیت اللہ محسود کے سر کی اتنی بڑی قیمت لگا کر حماقت نہیں کی بلکہ اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک انتہائی خطرناک شخص پاکستانی علاقے میں موجود ہے اور اس کے ڈھونڈنے کے لئے امریکی اور نیٹو افواج کو پاکستان جانا چاہئے۔ یہ سارا ڈرامہ صرف اور صرف اس لئے کیا گیا ہے۔ 17 ہزار تازہ دم فوج کو افغانستان میں اتارنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ دونوں ملکوں میں جنگ کی بھٹی کو مزید دہکا دیا جائے اور ڈیڑھ ارب ڈالر کی مشروط امداد کا اعلان بھی ایک طرح سے آکسیجن ایڈ کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ اس لئے کہ ہمیں زندہ رکھ کر ہم پر مزید تازیانے برسائے جا سکیں جیسے تانگہ بان گھوڑے کو اگلے روز تانگے میں جوتنے کیلئے کچھ کھلاتا پلاتا ہے۔
ایسے ہی یہ امداد ہمیں زندہ رکھنے کیلئے ہے اور اس امداد کے بدلے میں صرف اور صرف Do More, Do More کا مطالبہ ہے۔ اوباما نے اپنی تقریر میں ڈرون حملوں کی پالیسی کے بارے میں کچھ نہ کہہ کر ثابت کر دیا ہے کہ یہ حملے جاری رہیں گے اور مستقبل میں بھی اسی طرح پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں بکھرتی رہیں گی۔ اس تقریر میں ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کے کردار کا تذکرہ کیا گیا جو صرف اور صرف پاکستان کو بھارت کی طفیلی ریاست بنانے کی جانب اہم قدم ہے۔ تقریر میں فرینڈز آف ڈیموکریٹک فورم کا بھی تذکرہ ہوا۔ یہ فورم بظاہر تو پاکستان کی اقتصادی مدد کے لئے بنایا گیا ہے مگر اس فورم کے ذریعے کسی طور پر بھی پاکستان کی خیر خواہی مطلوب نہیں ہے۔
اس فورم کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف دی جانے والی امداد پر نظر رکھے یا سیدھے سادے الفاظ میں یہ ہے کہ اس فورم کے رکن ممالک پاکستان کو ملنے والی امداد کے مصارف پر بطور چیکر یا انسپکٹر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ دیئے جانے والے ڈالرز امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے خرچ ہو رہے ہیں یا نہیں۔ اس تقریر کے چند منٹ بعد ہمارے وزیر خارجہ کا اس تقریر کا خیرمقدم کرنا حیران کن اور بچگانہ حرکت ہے حالانکہ اس تقریر میں باراک اوباما نے لگی لپٹی رکھے بغیر سب کچھ کہا ہے اور اس سے پاکستان مخالف عزائم کا اندازہ ہو جاتا ہے وزیر خارجہ کے فوری ردعمل سے بس یہ اندازہ ہوا کہ ہمیں صرف اور صرف ڈالروں سے غرض ہے قومی وقار‘ ملکی مفاد اور خودمختاری جیسے الفاظ ہماری ڈکشنری میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔