معرکۂ حق و باطل
کربلاکے میدان میں نواسہ رسولؐ، جگر گوشہ بتول ؑ، امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کی شہادت سے حق و باطل میں ابدی تفریق ہو گئی۔ قیامت تک کے لئے حق و صداقت، حریت، درسِ انقلاب، عزم و استقلال، صبروبرداشت اور مظلوم کی آواز امام عالی مقامؓ کی ذات ہے۔ آپ نے اسلام کی آبیاری اپنے اور اپنے پیاروں کے خون سے کی، حق کا استعارہ امام عالی مقام ؓ ہی ہیں۔ معرکہ کربلا صرف ایک جنگ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا سورج ہے جس کی تنویریں روز محشر تک تابندہ ہیں۔ آپ نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور پھر میدان کربلا تک کا جو سفر کیا، لوگوں سے ملاقاتیں فرمائیں، وعظ و نصیحت کئے، خطبات ارشاد فرمائے، حسن سلوک کیا، اﷲ اور اس کے رسولؐ کا پیغام پہنچایا وہ مصلحت سے خالی نہ تھے، ان میں کوئی نہ کوئی مشن پنہاں تھا۔
امام عالی مقام ؓنے دینے سے رخت ِ سفر باندھا، حج کی نیت سے مکہ معظمہ تشریف لائے، یہاں آئے تو معلوم ہوا کہ یزیدی افواج حرمت کعبہ کو بالائے طاق رکھ کر خانہ کعبہ میں نواسہ رسولؐ کا خون بہانا چاہتی ہے۔ آپ نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور پھر اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔ امام عالی مقام ؓ عازم کوفہ تھے لیکن آپ کو کربلا کے لق و دق صحرا میں گھیر لیا گیا، آپ کا محاصرہ کیا گیا، آپ نے حجت تمام کرنے کی خاطر ان کے سامنے چند تجاویز رکھیں تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ آپ کسی صورت بھی جنگ نہیں چاہتے تھے، آپ تو اپنے نانا رسولؐ خدا کے مشن کی سربلندی کے لئے اور اصلاح امت کی خاطر مصروف سفر تھے۔کربلا کے صحرا میں جس لشکر نے آپ کو اور آپ کے اعزّا و اقربا، جانثاروں کو گھیرا اس لشکر کی قیادت و کمان حُر ریاحی کے ہاتھ میں تھی، حُر ریاحی نے آپ ؑ کا راستہ روکا اور حکم یزید سنایا جس کی رو سے حُر کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ امام عالی مقام ؓکوگھیر لے اور انہیں یزید کی بیعت پر مجبور کرے اور انہیں اس صحرا سے نکلنے نہ دے۔ حُر یزیدی فوج کا جرنیل تھا اس نے امام عالی مقام کے گھوڑے کی لگام تھام کر کہا کہ آپ ؑ یہاں سے کسی طرف بھی اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔ ادھر امام ؓکا حسن سلوک یہ تھا کہ آپ نے حُر ریاحی کو اورا س کے لشکر کے پیاسے سپاہیوں کو پانی پلایا حتیٰ کہ ان کے جانوروں تک کو پانی پلایا، لشکر سے خطاب بھی کیا، اپنا تفصیلی تعارف، مقصد اور مشن بیان کیا اور یزیدی سازش کو بے نقاب کیا۔یہ لشکر چونکہ یزید کا وظیفہ خوار تھا، لالچ، طمع، دنیاوی دولت سے مرعوب تھا اور اپنے سامنے امام عالی مقامؓ کے قلیل جانثاروں کو دیکھ رہا تھا لہٰذا مادی لالچ کے تقاضوں کے تحت یزید کی ہی طرفداری پر گامزن تھا، قرآن، رسول ؐاکرم کی احادیث، نواسہ رسولؐ کے مقام و مرتبے کو فراموش کئے ہوئے تھا، رسولؐ کی وہ حدیث کہ ’’حسن ؓو حسین ؓ جوانان جنت کے سردار ہیں‘‘ دنیاوی طاقت کا نشہ ان کے سروںپر سوار تھا، انہیں صرف اس لئے بھیجا گیا تھا کہ یزید کی بیعت کا انکار کرنے والے کا سر قلم کیا جائے، وہ یہ بھول گئے تھے کہ بقائے دین اور قرآن کی سربلندی کی خاطر امام عالی مقامؓ اس لق و دق صحرا میں کھڑے ہیں۔جب حُر ریاحی نے امام عالی مقام ؓکے کربلا پہنچنے کی اطلاع گورنر کوفہ ابن زیاد کو پہنچائی تو اس نے عمر ابن سعد کی کمان میں ایک اور یزیدی دستہ کربلا بھیج دیا۔ امام عالی مقام ؓنے اس لشکر کے سامنے بھی وعظ و نصیحت کی، خطبہ ارشاد فرمایا۔ کسی اور پرامام عالی مقام ؓکے خطبوں اور وعظ کا اثر ہو نہ ہو حُر ریاحی پر ان کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ اس نے عمر ابن سعد سے گفتگو کی کہ جب امام عالی مقامؓ جنگ کرنا ہی نہیں چاہتے اور وہ مدینہ واپس یا کسی اورطرف جانے کے لئے تیار ہیںتو ہم ان سے جنگ کیوں کریں اور اگر کوئی جنگ کی نیت سے آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ خواتین اور بچوں کو ساتھ لے کر نہیں آتا۔ جب یہ پیغام ابن زیاد تک پہنچا تو اس نے کہا کہ یزید کا حکم ہے کہ امام عالی مقام ؓسے بیعت طلب کی جائے اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کا سر قلم کر کے بھیجا جائے۔اب حُر ریاحی کو یہ ملال ہوا کہ امام عالی مقام ؓ کو اس صحرا میں گھیر کر لانے والا تو وہ ہی ہے اور امام ؓکے خطبات نے اس کی آنکھیں کھول دی ہیں، یہ قلق اس پر شدید سے شدید تر ہونے لگا۔ اس نے اپنی خلش کا اظہار عمر سعد سے بھی کیا اور اس کا ارادہ معلوم کیا۔ پھر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی، اپنے ایک غلام اور بیٹے کے ساتھ امام عالی مقامؓ کی خدمت میں حاضر ہو گیا، امام عالی مقام ؓکے مبارک ہاتھوں کا بوسہ لیا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر معافی طلب کی اور کہا کہ میرا گناہ اتنا بڑا ہے کہ میں معافی کا طلب گار بھی نہیں ہو سکتا، آپ کا سامنا بھی نہیں کر سکتا، اسی لئے میں اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر آیا ہوں۔ اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں، مجھے حق کی پہچان ہوگئی، مجھے سیدھا راستہ مل گیا، حق و باطل میرے سامنے آشکار ہو گیا۔امام عالی مقام نے حُر کو اپنے قدموں سے اٹھایا، سینے سے لگایا اور معاف کر دیا۔قیامت تک کے لئے حق و باطل میں تمیز ہو گئی، حق و باطل کا فیصلہ ہو گیا، دنیاوی جاہ و حشمت، لالچ، طمع، دولت، دھونس، ظلم و جبر، حکومتی وسائل کو چھوڑ کر مظلوم کی حمایت، حق کا پیغام، جنت کا راستہ، مشن حسینی ؓ امر ہو گیا۔حق کی پہچان تو یہ ہے کہ امام عالی مقام اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تم میں سے کوئی اپنی مرضی سے یہاں سے جانا چاہے تو چلا جائے، اور اگر کسی کو نواسہ ٔ رسولؐ کا ساتھ چھوڑ کر جانے میں ہچکچاہٹ ہے تو میں چراغ گُل کئے دیتا ہوں، رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نکل جائے، لیکن امام عالی مقام ؓکے ساتھیوں نے تلواریں نیام سے نکال لیں اور اپنی اپنی کمر کس لی، اورعرض کی کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں، جب ہم حق پر ہیں تو موت ہم پر گرے یا ہم موت پر۔حُر نے خواہش کی کہ اپنے گناہوں کے کفارے کی خاطر میں ہی سب سے پہلے اپنی جان نواسہ رسولؐ، جگر گوشہ بتول ؑ پر قربان کرنا چاہتا ہوں، حُر ریاحی نے اجازت طلب کی، یزیدی فوج سے جنگ کی اور امام عالی مقامؓ ؑپر اپنی جان نچھاور کر دی اور کربلا کے پہلے شہید ہونے کا ابدی اعزاز حاصل کیا۔ حُر کی شہادت حق کا استعارہ ہے، حق کی فتح کا اعلان ہے، حق کے غالب ہونے کی دائمی علامت ہے، حریت کا اعزاز ہے۔