امیر حسین چمن کی یاد یں
امیر حسین چمن کی یاد یں
مجھے یاد نہیں میری خوبرو امیر حسین چمن سے کب پہلی ملاقات ہوئی ؟ انہوں نے اپنے آپ کو قلم کار نہ بنایا ہوتا تو وہ یقیناً سکرین دنیا کا ایک درخشندہ ستارہ ہوتا ۔ ان کی کتاب’’ملاقات و حکایت ‘‘ میں میرا ایک خط شائع ہوا ہے جس سے سے یہ پتہ چلتا ہے ہم دونوں کے درمیان 8اگست1976ء سے ’’خط و کتابت کے ذریعے تعلقات استوار ہوئے اس کے بعد بات خط و کتابت سے آگے بڑھ گئی اور ہمار ے درمیان دوستی کا آغاز ہو گیا ان کے ساتھ قلمی تعلق تو تھا ہی لیکن ان کے ساتھ عمر بھر دوستی رہی امیر حسین چمن کا تعلق کراچی سے تھا لیکن واپڈا کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کی نشست پر فائز ہونے کے ناطے دوران ملازمت ان کا خاصا وقت اسلام آباد میں گذرا ان کا سسرال بھی راولپنڈی تھا لیکن واپڈا سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوںنے دوبارہ کراچی میں جا بسے ۔ وہ قلم کے’’ کھلاڑی‘‘ تھے اگرچہ واپڈا کی ملازمت کے دوران ان کے اندر پایا جانے والا صحافی سسکتا رہا لیکن ان میں پائی جانے والی بے پناہ صلاحیتوں نے ان کے اندر قلم سے محبت کو زندہ رکھا انہوں نے اپنے آپ کو واپڈا کے پریس ریلزوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے کتاب سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے انہوں نے فرصت کے لمحات نہ صرف کتب بینی کی بلکہ اس دوران انہوں نے اپنی بکھری تحریروں کو کئی کتب میں سمیٹ دیا اس دار فانی سے کوچ کر جانے سے قبل پایہ کی کتب کا سرمایہ چھوڑ گئے ہیں جن پر ان کی بیوہ اور بچیاں بجا طور پر فخر کر سکتی ہیں انہوں نے واپڈا میں اپنے اوپر ’’سرکاری ملازم‘‘ کا بھوت سوار نہیں ہونے دیا انہوں نے چپکے چپکے اپنے اندر کے ’’ادیب اور صحافی‘‘ کو بیدار رکھا واپڈا اور اہل قلم میں امیر حسین کو ’’چمن‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ان کا خاندانی نام (ددھیالی)آغا امیر حسین قلزباش تھا جب کہ (ننھیالی )چمن تھا ۔ وہ دہلی میں قیام پاکستان سے قبل 4جولائی 1947ء کو پیدا ہوئے ان کے والد محترم آغا عسکری مرزا قزلباش ہجرت کر کے کراچی آگئے ان کا سلسلہ نسب امیر تیمور سے جا ملتا ہے انہوں نے کراچی یونورسٹی سے ایم اے(صحافت ) میں کیا ۔1966 سے1972ء تک انہوں نے روزنامہ روشنی سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا وہ1966ء سے1980ء کے دوران روزنامہ جنگ ، انجام ، مساوات ، حریت اور مشرق کراچی سے بھی وہ وابستہ رہے انہوں لیل و نہار ، اخبار جہاں ، عالمی ڈائجسٹ ، عالمی ڈائجسٹ ، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سے فری لانس جنرلسٹ کی حیثیت سے کا م کیا انہوں نے 1971 ء سے 1976ء کے دوران پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی ) نیوز ایجنسی اور اس کے ہفت روزہ ’’پیمان ‘‘ میں رپورٹر ، سب ایڈیٹر ، فیچر رائٹر ، اور رکن ادارہ تحریر ، شعبہ ادارت ، اور معاون مدیر کی حیثیت سے بھی کام کیا انہوں نے 1975سے 1979ء کے دوران ہفت روزہ چٹان سے نمائندہ خصوصی کراچی بھی کام کیا یہی وہ ہماری صحافت کا سنہری دور ہے جب میں ہفت روزہ چٹان میں اسلام آباد اور امیر حسین چمن کراچی سے نمائندہ خصوصی سے کام کرتے تھے اس وقت پاکستان میں ٹیلی کمیونیکشن کے نظام نے اتنی ترقی نہیں کی تھی موبائل فون نام کی کو چیز نہیں ٹلی فون پر دوسرے شہر میں رابطہ کرنا جان جوکھوں کا ہوتا تھا اس دور میں ’’خط و کتاب‘‘ رابطہ کا مضبوط رشتہ تھا جو اب بڑی حد تک متروک ہو گیا ہے اس کی جگہ ای میل نے لے لی ہے ۔ امیر حسین چمن جہاں ایک پایہ کے صحافی تھے وہاں وہ اان کے اندر ایک ادیب بھی چھپا ہو تھا ان کی تحریروں کے مطالعہ سے جگہ جگہ ادبی ذوق نمایاں نظر آتا ہے ان کی پہلی تالیف ’’ منبر کا دوسرا نام ‘‘ نامور دینی مفکر ، دانشور اور خطیب علامہ رشید ترابی بارے میں 1975ء میں شائع ہوئی کس کتاب کا پہلا ایڈیشن کراچی میں 5دن میں فروخت ہونے کا 25سالہ ریکارڈ آج بھی موجود ہے امیر حسین چمن کو کھیل سے بھی گہرا شغف تھا انہوں نے سپورٹس رپورٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے لہذا 1977ء میں ’’نامور کھلاڑی اور دلچسپ واقعات ‘‘ پر مشتمل ان کی کتب شائع ہوئی ہے امیر حسین چمن ایک متحرک اخبار نویس تھے انہوں نے اپنی صحافتی زندگی میں ’’محراب و منبر کی نامور شخصیات سے ملاقات ومراسم کی حکایت ہے انہوں نے خوبصورت انداز میں اتحاد بین المسلمین کی ایک پرخلوص کوشش کی ہے اس کتاب میں مختلف مکاتب فکر کے علما ء کرام کو نمائندہ دینی شخصیات کو یکجا کرنے قابل قدر کوشش کی ہے امیر حسین چمن کی کتاب کلی طور شعر و ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ گزرے ہوئے ’’ ایک دن‘‘ کے یاد گار واقعات پر مشتمل ہے اس کا عنوان ’’ ملاقات و حکایات ‘‘ ہے ۔ اس کتاب میں ادبی شخصیات کے انٹرویوز ادبی ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک ’’تحفہ‘‘ سے کم نہیں ۔ اس کتاب ڈاکٹر عبد القدیر خان ، افتخار عارف پروین قادر آغا سمیت متعدد اہم شخصیات نے قلم اٹھایا ہے انہوں نے کتاب میں فیض احمد فیض ، جوش ملیح آباد ، احسان دانش ، استاد قمر جلالوی ، رئیس امروہوی، قتیل شفائی ، زیڈ اے بخاری ، حبیب جالب ، احمد فراز اور پروین شاکر کے انٹرویوز شامل کئے ہیں اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور 2001میں کتاب کی اشاعت اول ہوئی تھی آج 19، 20 گذرنے کے بعد مذکورہ بالا شخصیات اور خود مصنف زندہ نہیں لیکن یہ یاد گار انٹرویوز 20سال قبل کے ادبی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں بلند پایہ ادبی شخصیات کا انٹرویو لینے والی شخصیت کا بھی ادب سے اتنا ہی لگائو ہونا چاہیے سو امیرحسین چمن کا ادبی ذوق اتنا بلند تھا ہی تو اتنے بڑے ادیبوں اور شاعروں کا انٹرویو لینے کا حوصلہ پیدا ہوا انہوں نے1978ء میں واپڈا میں بحثیت پبلک ریلیشنز آفیسر کراچی جائن کیا تو وہ ادبی دنیا سے کٹ کر رہ گیا لیکن اس کے بوجود وہ وہ ادبی محافل شرکت کرتے خوبصورت افسانے بھی ان کے قلم نے تحریر کئے ہیں شعرو سخن کا ذوق رکھتے تھے انہوں نے غزلیں اور نظمیں بھی کہیں ۔ وہ اپنے آپ کو کراچی میں رکھنا چاہتے تھے ان پرکراچی نہ چھوڑنے کی دھن سوار تھی انہوں نے لاہور میں گریڈ 18کی چیف انفارمیشن آفیسر کی خالی آسامی پر امتحان دینے کی بجائے کراچی میں گریڈ 17 کی آسامی پبلک ریلشنز آفیسر کے مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا اور 78امیدواروں میں اول پوزیشن لے کر واپڈا کراچی میں پبلک ریلیشنز آفیسر تعینات ہو گئی وہ لاہو ر نہیں جانا چاتے تھے قسمت نے ان کو اسلام آباد میں اپنے سسرالی شہر بھجوا دیا جہاں انہوضں نے طویل اننگز کھیلی واپڈا میں ہی ان کے ایک ادبی ذوق رکھنے والے دوست شاعر صدیقی نے امیر ھسین چمن کے بارے درست لکھا ہے کہ ’’جس طرح فلم نے ساحر لدھیانوی کو ادب سے چھین لیا اسی طرح واپڈا نے ایک قابل رشک صحافی اور صاحب طرز ادیب کو ہم سے جیتے جی جدا کر دیا‘‘۔ امیر حسین چمن کی ڈائریکٹر واپڈا کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ ہوئی انہوںنے ’’ مثالی افسر تعلقات عامہ ‘‘ کٰ حیثیت سے شہرت پائی پھر اسلام آباد والوں نے انہیں ریٹائرمنٹ تک کراچی جانے نہیں دیا وہ ایک بے پناہ صلاحیتوں کے مالک افسر تھے مثالی قوت فیصلہ رکھنے والے افسرکی حیثیت سے صحافتی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے جانے پہچانے جاتے تھے واپڈا کے حکام نے امیر حسین چمن کو ’’شہر اقتدار‘‘ کے مشکل ترین سٹیشن پر تعینات کیا ان کے بارے
میں کہا جاتا ہے کہ ان کو جو کام دے دیا جائے ’’جن ‘‘ کی طرح کرتا ہے امیر حسین چمن پیدائشی لکھاری تھے افسانہ نگاری ان کا طرہ امتیاز تھا انہوں نے کم عمری میں ہی کہانیاںاورافسانے لکھنا شروع کر دئیے تھے ، اخبار جہاں ، لیل و نہار ، مشرق ، اخبار خواتین ، منشور اور عالمی ڈائجسٹ میں ان کے اعلی معیار کے افسانے شائع ہوتے رہے۔