میاں نواز شریف نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں بیرون ملک جاری علاج اور ڈاکٹروں کی طرف سے سفر نہ کرنے کی ہدایت کو وجہ بتایا گیا ہے۔ دوسری طرف مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ لوگ چاہتے ہیں کہانوازشریف دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر ملک کو درست سمت پر ڈالیں۔ مریم بی بی کہتی ہیں لوگ صرف نواز شریف کو واپس پاکستان میں ہی دیکھنا نہیں چاہتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف ملک کو درست سمت پر لانے کے لیے دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالیں۔ مریم نواز کو چاہیے کہ وہ اپنے والد سے درخواست کریں کہ وہ وطن واپسی آئیں پہلی فلائٹ سے ہی آئیں اور اپنا کام شروع کریں لیکن یہ مریم بی بی بھی جانتی ہیں اور میاں نواز شریف بھی اس سے بخوبی واقف ہیں کہ 2023 کے عام انتخابات سے پہلے وہ کسی صورت وطن واپس نہیں آ سکتے نہ وہ آنا چاہتے ہیں نہ وہ آ سکتے ہیں۔ اس موقف کو سیاسی رنگ دینے یا اپنی سیاسی حیثیت مضبوط بنانے کے لیے یہ ضرور کہتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو پورا وقت دینا چاہتے ہیں ان خیالات کا اظہار وہ لندن میں اپنے دوستوں سے بھی کرتے رہتے ہیں جبکہ یہاں پاکستان میں بھی ان کے اسی بیانیے کو فروغ دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہی ہے کہ نہ وہ وطن واپس آنا چاہتے ہیں نہ وطن واپس آئیں گے۔ ان کا دو ہزار تیئیس کے عام انتخابات تک وقت وطن واپسی کا کوئی اردہ نہیں ہے۔ وہ این آر او لے چکے ہیں اور حکومت این آر او دے چکی ہے اس لیے اس حوالے سے جتنی بھی بات کر لیں اب حکومت جتنی مرضی کوشش کر لے یہ عوام کو اندھیرے میں رکھنے اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہی ہو سکتی ہے۔ میاں نواز شریف کی جماعت کو بھی یہ علم ہے کہ وہ طے شدہ منصوبے کے تحت لندن گئے ہیں پھر بھی اگر مریم بی بی یہ سمجھتی ہیں کہ عوام میاں نواز شریف کو دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں میاں نواز شریف کو واپس لائیں اور انہیں اس سیٹ پر بٹھانے کی کوشش شروع کریں اگر میاں صاحب نہیں مانتے تو خود ٹرک کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھیں اور عوام میں نکلیں، زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم عوام سے ملیں، جمہوریت کے کچلے اور مسلے ہوئے عام آدمی سے ملیں اور دیکھیں کہ ملک کو کس حال میں چھوڑ کر گئے تھے۔ ملک کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ حکمران آج بھی نام عوام کا لیتے ہیں اور ان کی اپنے ہی ملک میں آمد و روانگی ان کے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر ہی ہوتی ہیں۔ ہم ان حکمرانوں سے کیسے اچھی امید باندھ لیں یا کیسے ان کے فیصلوں پر شکوک و شبہات کا اظہار نہ کریں جن کا ہر قدم عالمی طاقتوں کے حکم کا محتاج ہوتا ہے۔
شیخ رشید نے اس حوالے سے شاید آدھا سچ اپنی کتاب میں بھی بیان کیا ہے یا پھر وہ ابھی تک آدھا سچ ہی بیان کرنے کی ہمت رکھتے ہیں شیخ رشید نے کہا ہے کہ پرویز مشرف محترمہ بینظیر بھٹو کو این آر او دینا چاہتے تھے جبکہ چودھری برادران پیپلز پارٹی کو این آر او دینے کے مخالف تھے وقت نے ثابت کیا کہ چودھریوں کا موقف درست تھا۔ شیخ صاحب ہمت کریں اور پورا سچ قوم کے سامنے لائیں کیا ایسا نہیں تھا کہ پرویز مشرف بھی کسی کو این آر او نہیں دینا چاہتے تھے بلکہ عالمی طاقتوں کے زیر اثر تھے اور ان پر ہماری سیاسی قیادت کو این آر او دینے کے حوالے سے بہت دباؤ تھا پرویز مشرف نے اپنی مرضی سے این آر او نہیں دیا بلکہ انہیں این آر او دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ دو ہزار سات کا وہ سیاسی منظر نامہ کچھ زیادہ پرانا تو نہیں ہے سب کو یاد ہو گا کہ اس وقت کیا حالات تھے اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کیسے وطن واپس آئی تھی۔ پرویز مشرف تو جانتے تھے کہ یہ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی واپسی اور وردی اتارنے کے بعد وہ حکومت میں نہیں رہیں گے ا نہیںتو اندازہ تھا کہ اس این آر او کے بعد ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن ان پر عالمی دباؤ تھا اب شیخ رشید اس حوالے سے بولے ہیں تو کیا یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ عوام کو پورا سچ بتائیں کہ پرویز مشرف کو این آر او دینے کے لیے کون مجبور کر رہا تھا۔ ہمیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے نعرے لگانے والے صرف اپنے اقتدار کے لیے ایسے بیانات جاری کرتے ہیں۔ یہ خود اپنے ہی ملک میں آنے اور یہاں سے باہر جانے کے لیے کسی اور کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک یا دوسری رائے نہیں ہے کہ میاں نواز شریف کی لندن روانگی اور آمد بھی یقیناً اسی عالمی دباؤ کے تحت ہو گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر سب کو اندازہ ہو جائے گا یہ ایسا کرنے میں حکومتوں کا ہاتھ ہوتا ہے یا پھر سیاست دان کرتے ہیں یا پھر دفاعی ادارے اس کا حصہ بنتے ہیں یا اس این آر او مہم میں سب سے بڑا حصہ سیاست دانوں کا ہوتا ہے جنہوں نے اس ملک کو معاشی طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ممکن ہے پھر ویسے ہی حالات ہوں جیسا کہ دوہزار سات میں ان دونوں جماعتوں کے بڑوں کی وطن واپسی کے بعد ملک میں جمہوریت کے نام پر سیاسی کھیل شروع کیا تھا۔
ہم نے شیخ رشید کی کتاب کا مطالعہ تو نہیں کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کچھ نہ لکھا ہو کہ پرویز مشرف سے سب سے زیادہ سیاسی غلطیاں کس نے کروائی ہیں۔ اگر انہوں نے ان کرداروں پر روشنی نہیں ڈالی تو اب ضرور بات کریں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے غلط سیاسی مشورے دیے اور ان غلط فیصلوں کا ذمہ دار کون ہے اس میں کچھ شک نہیں ان غلط فیصلوں کی سزا قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اس وقت تک تو ملک درست سمت میں آگے بڑھ رہا تھا۔ بہتر احتساب کے لیے کام ہو رہا تھا، سرمایہ کاری آ رہی تھی ملک کی معیشت بہتر ہو رہی تھی یہ سفر کیوں رکا، یہ سفر روکنے میں کس کا مشورہ اور کس کا ہاتھ تھا اس کا جواب شیخ رشید کو ضرور دینا چاہیے بلکہ ہم عوامی مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ سوال ان کے سامنے رکھتے ہیں کہ وہ یہاں اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات ضرور دیں کیونکہ اس دور کے غلط سیاسی فیصلوں کی بدولت ملک میں کرپشن کی اعلیٰ ترین شکل کی بنیاد رکھی گئی۔ آج نظر آنے والی کرپشن کا آغاز اسی دور یعنی دو ہزار دو کے بعد ہوا تھا۔ کرپشن کا ایک دور انیس سو پچاسی سے انیس سو ننانوے تک پھیلا ہوا ہے اور اس حوالے سے دوسرا بدترین دور دو ہزار دو سے دو ہزار اٹھارہ تک پھیلا ہوا ہے اس دور میں کرپشن کے نت نئے طریقے ایجاد ہوئے، نئے نئے انداز سے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ انیس سو پچاسی سے انیس سو ننانوے کے دوران ترقیاتی منصوبوں، مختلف قسم کے پرمٹ اور ٹھیکوں یا سیاسی رشوت کی شکل میں کرپشن کے ذریعے ملکی معیشت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی بنیاد رکھی گئی دو ہزار دو کی سیاسی حکومت نے وائٹ کالر کرائم کی روایت شروع ہوئی اور دو ہزار سات سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران یہ مکروہ کھیل تیزی کھیلتا رہا چند سیاسی خاندان اور ان کے حواری ملکی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا آج ہونے والی مہنگائی اور مشکل ہقتی زندگی ان سیاست دانوں کی کھلی کرپشن اور وائٹ کالر کرائم کی وجہ سے ہی ہے۔
ان سیاسی ادوار سے پہلے تو کرپٹ کو کرپٹ کہنے والے کو بہادر سمجھا جاتا تھا لوگ چوروں سے کتراتے تھے ان سے تعلق کو چھپاتے تھے اور دور رہتے تھے لوگ اس بات پر عمل کرتے تھے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے لیکن ان کرپٹ سیاسی ادوار نے ہماری اخلاقی قدروں کو تباہ کر کے رکھ دیا آج منظر یکسر بدل چکا ہے جو جتنا کرپٹ ہے وہ اتنا ہی معتبر ہے۔ آج لوگ تصدیق شدہ کرپٹ افراد سے ملنا، تعلقات بنانا اور ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اس کے برعکس شریف انسان تکلیف میں زندگی گذارتا ہے بلکہ ملک کے بہترین دماغ کسمپرسی میں زندگی گذار دیتے ہیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ وفاق صوبوں پر حملے کر رہا ہے اور صوبے جواب دے رہے ہیں اب ان چیزوں کی گنجائش نہیں ہے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا درست ہے کہ وفاق حملے کر رہا ہے لیکن شاہد خاقان عباسی سے یہ بتائیں کہ جو کچھ کراچی میں ہو رہا ہے کیا اس صورتحال میں ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اگر ہم یوں کہیں کہ وفاق حملے نہیں کر رہا بلکہ صوبے وفاق کو موقع فراہم کر رہے ہیں تو ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کیا ہمیں ہر کام اور ہر بیان سیاسی مخالفت میں ہی کرنا چاہیے۔ شاہد خاقان پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تو دو سال کی ناکامی پر ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیا اگر دو سال میں تحریکِ انصاف کامیاب نہیں ہو سکی تو دہائیوں سے سندھ پر حکومت کرنے والی دونوں سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ ایم کیو ایم کے کردار پر بھی سابق وزیراعظم کو اسی انداز میں بات کرنی چاہیے جیسے وہ تحریک انصاف کی ناکامیاں گنواتے ہیں۔ یہی ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ ہم ہر وقت سیاسی مفادات کو مقدم جانیں اور اہم قومی معاملات پر بھی مصلحت سے کام لیں۔ شاہد خاقان پاکستانی بن کر سوچتے تو وہ یقیناً پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر تنقید کرتے اور حقیقت عوام کے سامنے رکھتے لیکن انہوں نے پاکستانی سے زیادہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے نمائندے کے حیثیت سے بات کی۔ اگر سندھ میں صوبائی حکومت ناکام رہے، عوام غربت، لاقانونیت، دہشت گردی اور بھوک سے مرتے رہیں تو کیا وفاق خاموش رہے کیا عام آدمی کو بچانا اور ان کے مسائل حل کرنا وفاق کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہم بہت سی باتیں لکھ نہیں سکتے کہہ نہیں سکتے لیکن ہمیں علم تو ہوتا ہے کہ حقیقت کیا ہے ہم ملکی مفاد کے پیشِ نظر خاموش رہتے ہیں بتایا جائے کہ کیا مسائل حل کرنا صوبوں کی ذمہ داری نہیں ہے اور اگر صوبے مسلسل عام آدمی کے مسائل کو نظر انداز کرتے رہیں تو اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں کیا ان حالات میں وفاق خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہے۔ صوبے ناکام ہوتے ہیں تو وفاق اپنی ذمہ داری نبھانے آتا ہے تو اسے مداخلت سمجھا جاتا ہے اور لڑائیاں ہوتی ہیں کیا یہ لڑائیاں ہونی چاہییں یا پھر عام آدمی کے مسائل حل ہونے چاہییں۔
اس مشکل دور میں بھی شاہد خاقان عباسی ضرور واقف ہوں گے کہ سارے مسائل بڑے شہروں سے ہیں کہیں دیہات سے آوازیں نہیں آ رہیں بارش میں شہر ڈوب رہے ہیں، بجلی نہیں آ رہی، دودھ نہیں مل رہا، کھانے کی چیزیں نایاب ہیں، صحت اور تعلیم کا برا حال ہے یہ سارے مسائل بڑے شہروں میں ہی نظر آتے ہیں ان بڑے شہروں میں حکمران کون رہا ہے۔ کہیں شاہد خاقان عباسی کی جماعت رہی ہے تو کہیں ان کی میثاق جمہوریت کی ساتھی پیپلز پارٹی حکومت کرتی رہی ہے ان بے پناہ مسائل کی موجودگی میں بھی سابق وزیراعظم یہی سمجھتے ہیں کہ ساری ذمہ داری وفاق کی ہے یہ تو صوبائی حکومتوں اور خود ان کی اپنی اور ان کے سیاسی دوستوں کی ناکامی ہے۔ کراچی کے پانچ ڈسٹرکٹس ہیں اور کلکتہ کے چودہ ڈسٹرکٹس ہیں انتظامی معاملات کو خود دیکھ لیں اور عوام کو ضرور بتائیں کہ صوبوں میں حکومت کرنے والوں نے انیس سو پچاسی سے دو ہزار بیس تک کیسے حکومت کی اور عوام کے لیے کتنا کام کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز مسترد کر دی ہے وزیراعظم کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے ہر وہ قدم جس سے عام آدمی کو فائدے پہنچے اور عوام کے لیے آسانی کا باعث بنے لیکن اس فیصلے کے ساتھ وزیراعظم کو اپنی کابینہ اور اردگرد ایسے افراد کو ضرور ڈھونڈنا چاہیے جو انہیں ہر دوسرے دن چیزیں مہنگی کرنے کی تجاویز پیش کرتے ہیں ایسے افراد ناصرف عمران خان کی مقبولیت بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بھی کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے اردگرد ایسے وزیران اور مشیران موجود ہیں جو بیٹھے تو وزیراعظم کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ان کی خدمات، اطلاعات اور جذبات خلوص کے ساتھ لندن پہنچ رہے ہوتے ہیں وزیراعظم جتنا جلد ایسے افراد کو ڈھونڈ لیں گے یہ ناصرف ان کے بلکہ پاکستان تحریک انصاف اور ملک و قوم کے لیے بھی بہتر ہو گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024