نوازشریف کو واپس لانے کے جتن
ماضی کی داستانوں میں اکثر ایک کہانی ملتی تھی کہ شاہی خاندان کو گرفتار کر کے تخت شاہی پر کوئی اور براجمان ہو جاتا ہے۔ لیکن شاہی خاندان کا کوئی فرد مہر شاہی لیکر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔۔ اب جب تک وہ شاہی مہر نہیں ملتی تخت پر بیٹھا شخص بادشاہ نہیں کہلا سکتا لہذا ساری حکومتی مشینری نکل پڑتی ہے شاہی مہر تلاش کر کے واپس لانے پر۔۔
کچھ ایسی ہی صورتحال سے اس وقت ہم دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ نوازشریف شاہی مہر اپنے ساتھ لے گئے ہیں جس کے بغیر نظام سلطنت چلانا ممکن نہیں ہے اور یہ کوئی ایسی طلسماتی مہر ہے جس میں تمام کرپٹ مافیا ذخیرہ اندوز اور مہنگائی کرنے والے عناصر کی جان بھی محفوظ ہے کہ جب تک وہ مہر ہمارے قبضے میں نہیں آتی ہم کسی کرپشن کرنیوالے کی گردن پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ ہماری اکانومی ڈویلپمنٹ اور ترقی بھی اسی مہر میں قید ہے یہ جب تک ہاتھ نہیں لگے گی پوری قوم کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوازشریف کو واپس لا کر وہ مہر کیسے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ نوازشریف کو تو ہم خود سیریس مریض ڈکلیر کر کے ائر ایمبولینس پر لندن بھیجتے ہیں اور برطانیہ کے قانون میں ہے کہ اگر وہاں کا ڈاکٹر کسی کو مریض لکھ دے تو اسے کسی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جب تک وہ صحت مند نہ ہو جائے۔
نوازشریف نے برطانیہ کا دس سالہ وزٹ ویزا حاصل کر رکھا ہے جس کی ابھی کم از کم سات سال میعاد باقی ہے۔ برطانوی حکومت یہ ویزا کینسل نہیں کر سکتی کیونکہ پاکستانی برطانوی ویزا سنٹر میں نواز شریف نے اسکی دس سال کی فیس جمع کرائی ہوئی ہے۔ نوازشریف کو حکومتی سطح پر واپس لانے کی دوسری ایک ہی صورت تھی کہ ان پر کوئی منی لانڈرنگ ثابت ہو جاتی تو انگلینڈ کی نیشنل کرائم ایجنسی این سی اے کے تحت انکی واپسی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا جیسے آٹھ ماہ قبل یہاں کے ایک پراپرٹی کنگ کے لندن میں ہائیڈ پارک پر لیے گئے گھر کی منی ٹریل کلیئر نہ ہونے پر انگلینڈ نے وہ رقم ہماری گورنمنٹ کو بھجوا دی تھی لیکن نوازشریف تو منی لانڈرنگ کے ایون فیلڈ والے کیس میں ہی بری دکھائی دیتے ہیں اور مزے سے وہیں رہ رہے ہیں اور بیٹے انکے برطانوی شہری ہیں۔
کچھ دنوں سے محترم وزیراعظم کے بیانات سے لگ رہا تھا کہ نواز شریف کی اب واپسی کی کوئی صورت نکل آئے گی لیکن کیا کریں بعض وفاقی وزرا ء کا جن کے بیانات کی انٹرنیشنل سطح پر اتنی اہمیت ہوتی ہے کہ انکے ایک بیان سے پورے یورپ میں پی آٓئی اے کی فلایٹس بین کر دی جاتی ہیں جو ابھی تک نہیں کھلیں اب وہی صاحب دوبارہ پھر فرما رہے ہیں کہ نوازشریف جیسے لوگوں کو تو الٹا لٹکا دینا چاہیے۔۔ ایسے بیانات دکھا کر تو نوازشریف برطانوی حکومت سے سیاسی پناہ بھی طلب کر سکتے ہیں کہ وہاں کے وفاقی وزیر یہ بیان دے رہے ہیں وہاں میری تو جان کو خطرہ ہے تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ بیان پاکستان کی حمایت میں دیا گیا ہے یا نوازشریف کی مدد کی گئی ہے۔اگر یہی اقدامات ہیں نوازشریف کو واپس لانے کے تو قوم پھر ناں ہی سمجھے۔ نوازشریف کی واپسی کی دوسری کرن رانا ثنا اللہ کے بیان سے دکھائی دیتی تھی کہ نوازشریف خود واپس آنے کیلئے بے چین ہیں اس پر بھی نوازشریف کے لندن میں قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف نہ تو کسی سے ملتے ہیں نہ ان کا کسی سے ٹیلی فونک رابطہ ہے۔ اب وہ کسی کو خواب میں آ کر ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ واپس آنے کیلئے بے تاب ہیں۔
اب سمجھ نہیں آتی کہ نوازشریف کو واپس کیسے لایا جا سکے کیونکہ ہمارے بلدیاتی الیکشنوں کی بھی آمد آمد ہے۔ گزشتہ الیکشنوں میں بھی نوازشریف جیل میں تھے تو عوام نے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دے دیئے تھے۔ بلدیاتی الیکشن کے ساتھ ساتھ 2021 میں سینٹ کا الیکشن بھی ہونے جا رہا ہے اور اب تک سینٹ کی مہر ضرور نوازشریف کی مٹھی میں ہے جو پاکستان کو بقول وزیراعظم گرے لسٹ سے نکلنے نہیں دے رہی اگر نوازشریف کی واپسی کے بنا پاکستان کی ترقی ادھوری ہے تو انکی فیملی اسکے اراکین اسمبلی سمیت ن لیگ کا پورا سٹرکچر یہاں موجود ہے کیا ان کا گھیرا تنگ کیا جائے گا جس سے نوازشریف کی جلد واپسی ممکن ہو سکے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور عام آدمی بھی سکھ کا سانس لے کیونکہ اب آٹے چینی دال اور ادویات کی قیمتیں عام آدمی سے کوسوں دور ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ عام آدمی کو تو یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ پہلے روزگار تلاش کرے یا آٹے چینی دال کے پیچھے بھاگے۔ ادھر انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی دل گرفتہ پوزیشن ہے بنگلہ دیشی ٹکا بھی ہم سے آگے نکل گیا ہے 85 بنگلہ دیشی ٹکوں میں ایک ڈالر مل جاتا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر سمت سے اپنی ڈائریکشن درست کرنی ہوگی۔ اگر ہمارا مسئلہ اکانومی نہیں نوازشریف ہے تو پھر پوری قوم کو سنجیدگی سے نوازشریف کو واپس لانے کے اقدامات پر سوچنا ہو گا کیونکہ اکیلی حکومت تو ہر کام نہیں کر سکتی نوازشریف کو جلد از جلد واپس لایا جائے تاکہ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسے عوام کو آٹا چینی اور دال انکی قوت خرید کے مطابق دستیاب ہو